پاک بھارت جھڑپ میں چینی ہتھیاروں کو عملی میدان میں پہلی بڑی آزمائش کا موقع ملا

دوستوں کے ساتھ ضرور شیئر کریں:

شنگھائی: بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی ختم ہونے کے کچھ ہی دن بعد پاکستان کے وزیر خارجہ بیجنگ پہنچے، جو کہ پاکستان کا سب سے بڑا اسلحہ فراہم کرنے والا ملک ہے۔

یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب عالمی تجزیہ کار اور حکومتیں پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ فضائی جھڑپوں کے دوران چینی ہتھیاروں کی کارکردگی کا بغور جائزہ لے رہی ہیں۔

لڑائی کے چار دنوں کے دوران پاکستان نے دعویٰ کیا کہ اس کے چینی ساختہ لڑاکا طیاروں نے چھ بھارتی طیارے مار گرائے، جن میں تین جدید فرانسیسی رافیل جیٹ بھی شامل تھے۔ اس دعوے نے دنیا بھر میں چینی فوجی صلاحیتوں پر بحث چھیڑ دی ہے۔

تاہم، دفاعی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس مختصر جھڑپ کی بنیاد پر چینی ہتھیاروں کی صلاحیت پر حتمی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہو گا۔

ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹیٹیوٹ کے لائل مورس کے مطابق، "یہ ایک نادر موقع تھا جب چینی ہتھیاروں کو مغربی ساختہ بھارتی ہتھیاروں کے خلاف عملی میدان میں آزمایا گیا۔”

چین اگرچہ ہر سال اربوں ڈالر دفاعی بجٹ پر خرچ کرتا ہے، تاہم اسلحے کی برآمدات میں اب بھی امریکہ سے بہت پیچھے ہے۔

سویڈن کے اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (SIPRI) کے ماہر سائمن ویزمین کے مطابق، چین کے ڈرونز یمن، افریقی ممالک اور انسداد دہشت گردی آپریشنز میں استعمال ہوتے رہے ہیں، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ریاست نے بڑے پیمانے پر چینی ہتھیاروں کو دوسرے ملک کے خلاف استعمال کیا ہے۔

پاکستان، چین کی کل اسلحہ برآمدات کا 63 فیصد استعمال کرتا ہے۔ حالیہ لڑائی میں پاکستان نے J-10C "ویگرس ڈریگن” اور JF-17 تھنڈر طیاروں کو فضائی حملوں کے لیے استعمال کیا، جو کہ J-10C طیارے کا پہلا عملی تجربہ تھا۔

پاکستانی فضائی دفاع میں بھی چینی HQ-9P طویل فاصلے تک مار کرنے والا میزائل نظام، ریڈارز، اور مسلح و نگرانی ڈرونز استعمال کیے گئے۔

کینیڈا کے دفاعی تجزیاتی ادارے Quwa کے بانی بلال خان کا کہنا ہے کہ "یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان نے بڑی تعداد میں چینی ہتھیاروں پر انحصار کیا اور یہی اس کی بنیادی دفاعی لائن تھی”۔

بھارت نے تاحال کسی طیارے کی تباہی کی سرکاری تصدیق نہیں کی، تاہم ایک بھارتی سیکیورٹی ذریعے نے بتایا کہ تین بھارتی طیارے گر کر تباہ ہوئے، مگر ماڈل یا وجہ نہیں بتائی گئی۔ رافیل بنانے والی کمپنی ڈاسوٹ نے بھی کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

سنگاپور کی نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی کے جیمز چار کے مطابق، "رافیل یورپ کا انتہائی جدید طیارہ ہے، جب کہ J-10C چین کا سب سے جدید طیارہ بھی نہیں۔ تاہم اگر پاکستان کے دعوے درست ہیں تو یہ حیران کن نہیں، کیونکہ J-10C کو خاص طور پر فضائی لڑائی کے لیے بنایا گیا ہے اور اس میں زیادہ طاقتور ریڈار نصب ہے۔”

جھڑپوں کے بعد J-10C بنانے والی کمپنی Chengdu Aircraft Company کے حصص کی قیمت میں 40 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

سٹمسن سینٹر کی یون سن نے پیش گوئی کی کہ "آئندہ چینی دفاعی کمپنیوں کو مزید آرڈرز مل سکتے ہیں”۔ تاہم امریکی تھنک ٹینک Defense Priorities کی جینیفر کواناگ کا کہنا ہے کہ "چین کو بڑے پیمانے پر اسلحہ برآمد کرنے کے لیے ابھی مزید وقت اور صلاحیت درکار ہے، کیونکہ وہ ابھی بھی کئی اہم پرزے مثلاً ہوائی جہاز کے انجن خود نہیں بنا سکتا۔”

ویزمین کے مطابق، اسٹاک مارکیٹ کا ردعمل "زیادہ تھا” کیونکہ "ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ ہتھیاروں کی اصل کارکردگی کیسی تھی۔”

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ جھڑپ چینی فوج کی مجموعی صلاحیت کا اصل عکاس نہیں، کیونکہ برآمد کیے جانے والے ہتھیار چین کی اصل فوجی صلاحیتوں سے کم درجے کے ہوتے ہیں۔

جینیفر کواناگ کے مطابق، "ہتھیار جتنے بھی جدید ہوں، اصل فرق ان کے استعمال کے طریقے سے پڑتا ہے۔”

سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے برائن ہارٹ نے خبردار کیا کہ "حالیہ جھڑپوں کی بنیاد پر حتمی رائے دینا درست نہیں ہو گا، کیونکہ تربیت اور مہارت جیسے اہم عوامل ابھی نامعلوم ہیں”۔

یہ خبریں بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے