تہواروں سے دور جانا
تہواروں سے دور جانا
تحریر۔نجیب اللہ
قرآن حکیم عید کے حوالے سے ہمیں کیا تعلیم دیتا ہے پہلے عید کے لفظ پر غور کرتے ہیں عید بنیادی طور پر عود سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے پلٹ کر آنا یعنی عید کے معنی ہیں بار بار لوٹ کر آنے والا دین قرآن میں یہ لفظ صرف ایک بار استعمال ہوا ہے سورہ مائدہ کی آیت ۴۱۱میں جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے آپ سے عرض کیا کہ اللہ سے التجا کریں کہ ہمارے لیے آسمان سے ہمارے لیے رزق اتارے جو ہمارے جسمانی نشوونما کے ساتھ اطمینان قلب کا بھی باعث بھی ہو جس پر حضرت مسیح علیہ السلام نے یہ دعا فرمائی ، اس کے علاوہ قرآن حکیم میں کسی اور جگہ اس لفظ کا ذکر نہیں ہوا ہے سوال یہ ہے کہ تہواروں میں دلچسپی کی کمی اور مصروفیات کیو ں پید ا ہورہی ہے ، پہلے عید کا بہار آتے ہی سب لوگ عید کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے تھے جس سے روزگار زندگی کو ایک نیا موڑ مل جاتااور زندگی کو اور خوبصورتی سے جینے کی ہیچا اٹھا جاتی اور خدمت عوام ناس کی طرف رجعہوجاتے تھے، عید ایک خوبصورت تہوار کے طور پر مسلمانوں میں منایا جاتاہے جو کہ تمام مسلم ممالک میں اس تہوار کو ایک جیسے اور پرجوش انداز میں منایا جاتاہے ،
جس سے لوگوں میں ایک ساتھ رہنے کا جوش پید ا ہوجاتاہے ، تہواروں کا عروج اس حوالے سے ہوا ہے کہ دوسرے قوم یا مذہب کے الگ الگ ایام یا تہوار ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمام امت مسلمہ کیلئے ایک باہجوم تہوار پیدا کیا جیسے ایک ساتھ ایک ہی وقت میں منایا جاتاہے اللہ تعالیٰ نے سب امت مسلمہ کو ایک جیسا قرار دیا گیاہے جیسے کہ روزوں میں تمام غریب و امیر کو ایک جیسا قرار دیا گیا ہے اگر غریب روزہ رکھتاہے تو امیروں کو بھی روزہ رکھناہے تاکہ ان کو اس بات کا پتہ جل جائے کہ جب کسی غریب کو ایک دن کا کھانا نہیںملتا تو اس پر دن کس طرح گزرتاہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ آعلہ سوچ رکھنے والاہے وہ عظم ذات والاہے لیکن جس طرح نئے دور کا آغاز ہوچکاہے جس میں لوگوں کی مصروفیات پہلے کے مقابلے بہت زیادہ ہوگئے ہیں جس میں سوشل میڈیا کے استعمال سرفہرست ہے ،جس سے اکثر لوگ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں موبائیل کا 6سے 7گھنٹے مسلسل استعمال سے آنکوں کی روشی بھی کمزور ہوجاتی ہیں ، آج کل بہت زیادہ تعدا دمیں لوگ اس مریض سے دوچار ہے جو آنے والے نسلوں کیلئے بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتاہے ، اس جدید دور میں والدین 5سے 7سال کے عمر کے بچوں کو موبائیل فون دے کر ان کا رجحان بھی سوشل میڈیا کی طرف راغب ہوچکا ہے اگر بچپن ہی سے بچوں کی نشوونما سہی طور پر ہوگا ان کی تربیت کا خاص خیال رکھا جائے گا تو ہی بچے ملک کا نام روشن کرسکیں گے ، ورنہ آنے والے وقتوں میںیہی بچے ملک وانسانیت کیلئے بہت بڑا خطرہ ثابت ہو سکتاہے ، بڑے تو بڑے چھوٹے بچے بھی سوشل میڈیا کے نظر چشم ہوچکے ہیں
۔
جو اپنے والدین کو وقت نہیں دے پاتے ہیں اس سے گھریلوں ماحول بھی ابتر ہوجاتاہے ، جب کوئی تہوار آتاہے تو ایک خوشی کا ماحول برپا ہو جاتاہے، جو بلکل ختم نظر آرہاہے اور تہواروں کی اہمیت بھی ختم ہورہی ہے ، لوگوں کی اس عظیم تہواروں سے دور جانے کی وجہ سوشل میڈیا ہے جس میں حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کے سوشل میڈیا کو ختم کریں جس سے لوگوں میں قانون کی پاسداری اور مضبوط ہوسکتے اور نوجوان نسل ملک کی فلاح وبہبود کیلئے اپنے زندگی سرف کریں ، تاکہ وہ اپنی زندگی یو ہی ضائع نہ کریں ، سوشل میڈیا کے اس نقصانات سے بچنے کیلئے والدین کی بہت خاص اہمیت کے حامل ہے ، والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو ایک منضم ماحول میسر کریں جس سے نوجوان نسل ضائع ہونے سے محفوظ رہ سکے۔
Mashallah thanks barooo for supports!