Ultimate magazine theme for WordPress.

بلوچستان، رواں ماہ آٹے کے 20کلو تھیلے کی قیمت میں کم از کم سو روپے اضافہ

0 714

کوئٹہ (مسائل نیوز)بلوچستان میں رواں ماہ آٹے کے20 کلو تھیلے کی قیمت میں کم از کم سو روپے اضافہ ہوا ہے اور آئندہ ہفتے مزید 100 روپے اضافے کے ساتھ قیمت 1400 روپے تک پہنچنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے فلور ملز مالکان کا الزام ہے کہ بلوچستان حکومت نے گندم کی مہنگی خریداری کی اور اب مقامی ملوں کو باقی صوبوں کی نسبت فی من 270 روپے مہنگی گندم دے رہے ہیں جس کا اثر قیمتوں پر پڑ رہا ہے۔کوئٹہ میں آٹے کی ایک نجی مل کے مالک محمد نعیم آغا نے اردو نیوز کو بتایا کہ ایک ماہ قبل کوئٹہ میں آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت 1200 روپے اور 100 کلو بوری کی قیمت 6 ہزار روپے تھی اور اب آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت 1300 روپے اور 100 کلو بوری کی قیمت 6500 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک ماہ قبل فلور ملز مالکان اوپن مارکیٹ سے گندم کی 100 کلو بوری 5100 سے 5200 روپے میں خرید رہے تھے اور اب 5800 روپے سے 6000 ہزار روپے میں خرید رہے ہیں۔نعیم آغا کے مطابق گندم کی قیمتوں میں اچانک اضافے کی وجہ حکومت بلوچستان کا چند روز قبل کیا جانے والا فیصلہ ہے۔ بلوچستان حکومت نے سرکاری طور پر ذخیرہ کی گئی گندم فروخت کے لیے پیش کی اور اس کا نرخ 2220 روپے فی من (100 کلو گرام 5550 روپے) مقرر کیا جو اوپن مارکیٹ سے فی من 200 روپے زیادہ تھا۔ان کے بقول عام طور پر سرکاری گندم کی قیمت اوپن مارکیٹ سے کم ہوتی ہے حکومت رعایتی نرخوں پر ملوں کو گندم فراہم کرتی ہے مگر بلوچستان حکومت کے اس فیصلے کے بعد گندم کا ذخیرہ رکھنے والے افراد یعنی پرائیوٹ سٹاکرز نے بھی گندم کی قیمتیں بڑھا دیں۔’پرائیوٹ سٹاکرز نے جب دیکھا کہ حکومت نے خود گندم کا سرکاری نرخ اوپن مارکیٹ سے زیادہ رکھا ہے تو انہوں نے بھی قیمتیں بڑھا دیں۔’تاہم سیکرٹری خوراک بلوچستان نور احمد پرکانی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عام مارکیٹ میں گندم کی قیمت ہمارے نرخ سے زیادہ ہے۔نعیم آغا نے الزام لگایا کہ فلور ملوں سے سرکاری گندم پر 100 کلو بوری پر 200 روپے رشوت بھی مانگی جاتی ہے، اس لیے ہمیں سرکاری گندم 5750 روپے میں پڑی گی۔پاکستان میں آٹے کی ملوں کے مالکان کی تنظیم پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین بدرالدین کاکڑ کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے چاروں صوبوں کو سرکاری گندم کا یکساں نرخ 1950 روپے مقرر کرنے کی ہدایت کی ہے۔پنجاب حکومت اور خیبر پختونخوا حکومت نے اس پر عمل کیا اور وہ سرکاری طور پر ذخیرہ کی گئی گندم فلور ملوں کو 1950 روپے کے نرخ پر فراہم کر رہی ہیں تاہم بلوچستان حکومت نے اب تک وفاقی حکومت کے اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا اور پنجاب کے مقابلے میں سرکاری گندم کی قیمت 270 روپے اضافے کے ساتھ 2220 روپے من (100 کلو 5550 روپے) مقرر کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے سیزن کے دوران (مارچ اور اپریل میں) کسانوں سے گندم 1800 روپے فی من میں خریدی جبکہ بلوچستان حکومت نے یہ خریداری فی من 200 روپے مہنگی کی۔ مہنگی خریداری کا بوجھ اب بلوچستان کے عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔سیکرٹری خوراک بلوچستان نور احمد پرکانی کا کہنا ہے کہ حکومت بلوچستان نے اس سال چار ارب 50 کروڑ روپے سے 85 ہزار میٹرک ٹن گندم خرید کر ذخیرہ کی ہے۔ باردانہ، ٹرانسپورٹیشن سمیت اخراجات ملا کر حکومت کو گندم فی من 2220 روپے میں پڑی اور اب ہم اسی قیمت خرید پر ملوں کو یہ گندم فراہم کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ وفاقی سطح پر پاسکو اور چاروں صوبوں میں محکمہ خوراک غذائی تحفظ اور گندم اور آٹے کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کی غرض سے گندم کی خاص مقدار سٹرٹیجک ریزور کے طور پر رکھتا ہے۔ اس غرض سے ہر سال فصل تیار ہونے پر اپریل میں کسانوں سے گندم خریدی جاتی ہے اور ستمبر سے سرکاری گوداموں میں ذخیرہ کی گئی یہ گندم اوپن مارکیٹ سے کم اور رعایتی قیمت پر آٹا ملوں کو فراہم کی جاتی ہے تاکہ آٹے کی قیمتوں میں استحکام کو برقرار رکھا جا سکے۔صوبائی سیکرٹری خوراک کے مطابق سندھ اور بلوچستان نے ایک نرخ پر گندم کی خریداری کی ہے۔ ہمیں طویل فاصلوں کی وجہ سے ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات زیادہ پڑتے ہیں، ہم نے کسانوں کو امدادی قیمت بھی دی اس وجہ سے بلوچستان کو پنجاب کی نسبت گندم مہنگی پڑی۔تاہم فلور ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین بدرالدین کاکڑ ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں گندم کی کاشت بلوچستان کے گرین بیلٹ کہلائے جانے والے نصیرآباد،جعفرآباد اور جھل مگسی کے اضلاع میں ہوتی ہے اور وہاں کے بڑے زمیندار سیاسی گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بااثر افراد ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ صوبائی حکومت نے ان سیاسی گھرانوں کے زمینداروں کو فائدہ دینے کے لیے مہنگی گندم خریدی۔ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں غربت کی شرح باقی تمام صوبوں سے زیادہ ہے یہاں کی 70 سے 80 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ غذائی قلت کی شکار آبادی کی شرح بھی یہاں باقی تمام صوبوں سے زیادہ ہے۔ اس صورت میں آٹے اور گندم کی نرخوں میں استحکام میں حکومتی ناکامی کا بوجھ اور منفی اثر عوام پر پڑرہا ہے۔سیکرٹری خوراک بلوچستان نور احمد پرکانی کے مطابق وفاقی پالیسی کے مطابق گندم کے نرخ کو فی من 1950 روپے تک لانے کے لیے حکومت بلوچستان کو گندم پر 58 کروڑ روپے کی سبسڈی دینے کی تجویز دی ہے۔ امید ہے کہ 15 اکتوبر تک صوبائی کابینہ اس تجویز کو منظور کر لے گی۔ اگر سبسڈی منظور کر لی گئی تو عوام کو 20 کلو آٹیکا تھیلا 1100 روپے میں ملے گا۔سیکرٹری خوراک بلوچستان نور احمد کھوسہ کے مطابق آئین کی شق 151 کے تحت گندم اور آٹے جیسی خوراکی اشیا کی ترسیل پر کوئی صوبہ پابندی نہیں لگا سکتا تاہم مارکیٹ میں ہیرا پھیری روکنے کے لیے سیزن میں ایک ماہ کے لیے گندم کی بین الصوبائی ترسیل پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔فلور ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین بدرالدین کاکڑ کے مطابق 18 ترمیم کے بعد صوبے اپنے اپنے طور پر عوام کو گندم پر سبسڈی دیتے ہیں۔ صوبے آئینی طور پر تو گندم کی ترسیل پر پابندی نہیں لگا سکتی مگر وہ سبسڈائز گندم اور آٹے کو صوبے سے باہر جانے کی روک تھام کو جواز بنا کر پابندی لگا دیتے ہیں جس کی وجہ سے اوپن مارکیٹ سے خریدی گئی گندم بلوچستان لانے میں بھی مشکلات پیش آتی ہے۔فلور مل کے مالک نعیم آغا کے مطابق بلوچستان میں 65 ملوں میں سے اب آٹے کی 25 سے 30 ملز فعال ہیں جنہیں کم از کم دو ٹرک گندم روزانہ درکار ہوتے ہیں۔ آج کل زیادہ تر گندم سندھ سے خریدی جا رہی ہے وہاں سے گندم لانے پر سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر جیکب آباد کے مقام پر فی ٹرک کم از کم 15 ہزار روپے رشوت لی جاتی ہے۔ بعض اوقات 40 ہزار روپے تک رشوت لی جاتی ہے۔سیکریٹری خوراک بلوچستان کے مطابق بلوچستان میں گندم کی پیداوار 11لاکھ 60 ہزار میٹرک ٹن جبکہ ضرورت 15 لاکھ 20 ہزار میٹرک ٹن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان شروع سے ہی گندم کے لیے باقی صوبوں پر انحصار کرتا ہے۔ اس وقت بھی بلوچستان کا گندم کی ضروریات کی 70 فیصد ضروریات کے لیے پنجاب اور سندھ پر انحصار ہے۔اپنی ضرورت کا 75 فیصد گندم خود کاشت کرنے کے باوجود بلوچستان باقی صوبوں پر گندم پر انحصار کیوں کرتا ہے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بدرالدین کاکڑ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں فلور ملوں یا نجی طور پر گندم کا ذخیرہ رکھنے والے افراد کو بینکوں سے قرضہ نہیں ملتا۔ ہم نے کئی بار سٹیٹ بینک سے شکایت کی ہے کہ بلوچستان میں لوگوں کو قرضے نہیں دیے جاتے۔ان کے مطابق بلوچستان میں سرکاری طور پر ایک لاکھ ٹن سے بھی کم گندم سالانہ خریدی جاتی ہے چونکہ بلوچستان میں ملوں یا نجی سرمایہ کاروں کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی کہ وہ گندم خرید کر سٹاک کر سکیں، اس لیے یہاں کے زمیندار سندھ اور پنجاب کے سرحدی اضلاع جا کر گندم فروخت کرتے ہیں۔ پنجاب میں کم شرح سود اور آسانی سے لوگوں کو قرضے ملتے ہیں اس لیے وہ نہ صرف اپنے صوبے بلکہ بلوچستان سے بھی گندم خرید کر ذخیرہ کر لیتے ہیں۔بدرالدین کاکڑ نے بتایا کہ بلوچستان کی آٹا ملوں کے مالکان گندم کی فصل تیار ہونے پر زیادہ سے زیادہ دو تین ماہ کا ذخیرہ رکھ لیتے ہیں، اس کے بعد وہ پنجاب جا کر وہی گندم مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں جو بلوچستان کے زمینداروں نے وہاں کے کاروباری حضرات کو فروخت کی ہوئی ہوتی ہے۔ پنجاب سے بلوچستان تک وہ گندم لانے پر اضافی اخراجات آ جاتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں آٹے کی قیمت باقی صوبوں سے زیادہ ہوتی ہے۔نعیم آغا کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے سرکاری گندم کے نرخوں کے اعلان میں تاخیر کا بھی قیمتوں پر اثر پڑا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ گندم کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے جس کی وجہ سے آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت 1400 روپے کی تاریخی سطح تک پہنچ سکتی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.