تحریر:نصرت افغانی
یہ پاکستانی فوج کی خواہش ہے یا انٹیلیجنس اداروں کی ناکامی لیکن یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ طالبان کو لانا اس لئے بھی ضروری معلوم ہوتا تھا کہ جو کام خود نہیں کرسکتے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ میں موجود جو بھارت دشمن عناصر بھارت کی افغانستان تک زمینی رسائی کے مخالف ہیں انکو شکست افغان طالبان ہی دے سکتے ہیں۔
روسی میڈیا کے مطابق طالبان رہنما شیر محمد عباس نے افغانستان ٹوڈے کو دئے گئے حالیہ انٹرویو میں بھارت کو اس خطے کا ایک اہم ملک قرار دیتے ہوئے اسکے ساتھ اچھے تجارتی اور اقتصادی تعلقات اور پاکستان کے راستے تجارت کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
“ہم چاہتے ہیں کہ جس طرح بھارت کے ساتھ پہلے ہمارے تعلقات تھے وہ اسی طرح جاری رہیں۔ ۔۔۔۔ ہم اپنے تجارتی، اقتصادی اور سیاسی روابط میں بھارت کو بہت اہمیت دیتے ہوئے بھارت کے ساتھ تعلقات بحال رکھنا چاہتے ہیں۔”
اگرچہ طالبان نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایسی اجازت دے گی کیونکہ طالبان کو بھارت تک پاکستانی زمین کے راستے تجارت کی اجازت دینے کا مطلب بھارت کو افغانستان تک پاکستانی زمین کے راستے تجارت کی اجازت دینا ہے۔ آنے والے دن نہ صرف طالبان کی صفوں میں اتحاد کا فیصلہ کریں گے بلکہ پاکستان کی سیاست میں بھی ہلچل کا باعث بنیں گے۔
اس امر کو نہیں بھولنا چاہئے کہ جس طرح سی پیک عسکری حلقوں کے مفادات کے اتار چڑھاو پر اثر انداز ہوسکتا ہے اسی طرح دہلی، لاہور کابل کا ممکنہ روٹ بھی۔
طالبان کے کابل پر قبضہ سے کچھ ہفتے قبل جنرل باجوہ نے بھارت سے اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن نام نہاد سیاسی حکومت کی جانب سے تنقید کے بعد یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ اسی تناظر میں افغانستان کی طالبان حکومت کا بیان بھی دیکھنا چاہئے جس میں پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش کو دونوں جانب سے عدم مداخلت کی سیاست سے مشروط کیا ہے۔
پرانی ہندی فلم کے مشہور ڈائیلاگ تھے کہ،
“تیرا کیا بنے گا کالیا”