MNN News
مسائل آپ کے اجاگر ہم کرینگے

“فادر آف پاکستانی “نیوکلیئر بم

ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور انکی سوچ

3 803

Get real time updates directly on you device, subscribe now.

تحریرو خصوصی رپورٹ : اسرار کھیتران

مغربی دنیا ڈآکٹر عبدالقدیر خان کو فادر آف پاکستانی ”نیوکلیئر بم“ کہتی ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام دنیا کے کئی ملکوں کو کھٹکتا رہا اور آج تک کھٹکتا رہتاہے۔ اس کے خلاف بڑی سازشیں ہوتی رہی اور آج تک ہو رہی ہیں۔ خاص طورپر بھارت اور اسرائیل پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو سبوتاژ کرنے کےلئے سازشیں کرتے رہے ہیں لیکن ان سازشوں کے باوجود پاکستان نہ صرف ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے میں کامیاب رہا بلکہ وہ مئی 1998 میں ایٹمی طاقت بن گیا۔ امریکہ بھی ایٹمی پروگرام بند کرانے کیلئے دباﺅ ڈالتا رہا۔

- Advertisement -

پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔ معروف کتاب (دی اسلامک بم) میں 1972ء میں ملتان میں منعقد ہونے والی اس میٹنگ کاتفصیلی ذکر موجود ہے جس میں مسٹر بھٹو نے پاکستان کے سائنسدانوں سے ملاقات کرکے ان سے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے امکانات پر گفتگو کی تھی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کہنا تھا کہ بھٹو صاحب نے جن سائنسدانوں سے ملاقات کی تھی وہ محض ہوائی باتیں کررہے تھے۔ ان میں بعض ایسے بھی تھے جو پاکستان کی بڑی طاقتوں کی ایما پر ایٹمی قوت بنانے کے خلاف تھے۔ ڈاکٹرعبدالقدیر خان نے راقم کو کئی مرتبہ بتایا کہ اس میٹنگ کے بعد خود انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھا تھا کہ وہ پاکستان آکر اپنے ملک کو ایٹمی قوت بنانے میں اپنا کردار ادا کرنے کےلئے تیار ہیں۔ جس پر مسٹر بھٹو نے انہیں پاکستان آنے کی دعوت دی اور انہیں یورنیم کی افزدوگی کا منصوبہ شروع کرنے کی اسائمنٹ دی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کہنا تھا کہ ان کی بیگم جو ایک غیر ملکی شہری تھیں تمام آسائشیں چھوڑ کر میرے ساتھ پاکستان آنے کےلئے تیار ہوگئیں۔ انہوں نے پاکستان آکر معمولی مشاہرہ پر پاکستان میں یورنیم کی افزدوگی کا بیڑا اٹھایا۔
پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا کام خان ریسرچ لیبارٹری کہوٹہ سے شروع ہوا اور آخر کار پاکستان ایک ایٹمی قوت بن گیا۔ اس ایٹمی پروگرام پر پاکستان کو کس طرح مشکلات سازشوں اور دباﺅ کا سامنا کرنا پڑا وہ ایک الگ تاریخ ہے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا دعویٰ تھا کہ انہیں اقتدار سے الگ کرنے کی بڑی وجہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ تھا۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر اور مسزبھٹو کی لاہور کے گورنر ہاﺅس میں ملاقات اور اس میں ایٹمی پروگرام کو بند کرنے کےلئے ذوالفقار علی بھٹو کو دھمکی تو ریکارڈ کی بات ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے الگ کرنے کے بعد بھی پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام جاری رکھا اور ہر طرح کا دباﺅ کا مقابلہ کیا۔ نوے کی دہائی میں امریکہ نے پاکستان کو ایٹمی پروگرام ختم کرنے کےلئے زبردست دباﺅ ڈالا۔ لالچ بھی دیا اور دھمکیاں بھی لیکن اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور ان کے کچھ رفقاءنے دباﺅ اور دھمکیوں کا مقابلہ کیا۔ پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام بچائے رکھا۔ مئی 1998ءمیں بھارتی ایٹمی دھماکے کے بعد پاکستان نے 28 مئی کو ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان کو دنیا کی ایٹمی طاقت منوالیا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو 28 مئی کے دھماکہ سے پہلے ہی متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ رہی سہی کسر جنرل مشرف کے دور میں پوری کر دی گئی جب یہ دعویٰ کیا گیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ایٹمی ٹیکنالوجی کی سمگلنگ کا خفیہ نیٹ ورک کا سراغ لگایا گیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ٹی وی سکرین پر لاکر ان سے معذرت کرائی گئی۔ اس وقت سے اب تک پاکستان کے ایٹم بم کے فادر کو ایک طرح سے حراست میں رکھا جارہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب علیل ہیں انہیں یروسٹیٹ کا عارضہ ہے جس کا عرصہ سے علاج ہورہا ہے ان کی صحت خاصی گرچکی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان عمر کے اس حصے میں پہنچ گئے ہیں جہاں وہ پاکستانی قوم اور ہمارے حکمرانوں کی طرف سے اپنے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر سخت دکھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ کسی اور ملک کو اس قدر محنت کرکے نیوکلیئر پاور بناتے تو وہ قوم انکی ہمیشہ احسان مند رہتی لیکن پاکستان میں ان کو صلہ یہ دیا گیا ہے کہ انہیں کئی سال سے قید میں ڈال دیا گیا ہے۔ ان کی آزادانہ نقل وحرکت پر پابندی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کہتے ہیں کہ حکمرانوں نے ان سے جو کچھ کیا وہ کیا لیکن پاکستانیوں نے بھی ان کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ ان کی رہائی کےلئے کوئی تحریک نہیں چلائی گئی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے اپنے ایک انٹرویومیں کہا تھا کہ میں نے اپنی محنت اور لگن سے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا دیا ہے۔ اب اسے بیرونی جارجیت کا کوئی خطرہ نہیں ہیں۔ لیکن پاکستان کو داخلی خطرات لاحق ہے۔ پاکستان کے ایٹم بم کے خالق کا کہنا تھا کہ پاکستان اخلاقی طور پر کمزور ہورہا ہے یہاں کرپشن عام ہے۔ بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو پاکستان کی پرواہ نہیں وہ اپنے ذاتی مفادات کےلئے کام کررہے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مزید کہنا تھا کہ قوموں کو ایٹم بم نہیں بچاتا ان کی اخلاقی قوت بچاتی ہے جو پاکستان میں مفقود ہے۔ یہاں پر بڑی بڑی سلطنتیں جن کی حکومتیں کئی براعظموں تک پھیلی ہوئی تھیں۔

اخلاقی پستی کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مسلمانوں کی عظیم سلطنت عثمانیہ کی مثال دی اور کہا کہ اخلاقی (مورال) زوال سلطنت عثمانیہ کو لے ڈوبا۔ ڈاکٹرعبدالقدیر خان اپنی تحریروں میں یہ ساری باتیں لکھتے ہیں وہ ان دنوں سخت رنجیدہ اور مغموم ہیں۔ ان کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ جس سلوک کے وہ مستحق تھے ان سے قوم نے وہ سلوک نہیں کیا یہ احساس ان کی علالت میں بھی شدت پیدا کررہا ہے۔

Get real time updates directly on you device, subscribe now.

Leave A Reply

Your email address will not be published.