موسیٰ خیل و دیگر علاقوں میں پار تھینیم( گاجربوٹی) کی تباہ کاریاں
موسیٰ خیل و دیگر علاقوں میں پار تھینیم( گاجربوٹی) کی تباہ کاریاں
تحریر:نصر من اللہ
دنیا میں جڑی بوٹیوں کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جدید میڈیکل سائنس انہی جڑی بوٹیوں سے بہت قیمتی ادویات متعارف کرارہی ہے۔ جو انسانوں اور جانوروں اورزراعت کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہیں۔ لیکن کچھ جڑی بوٹیاں ایسی ہوتی ہیں کہ جو بہت خطرناک ہوتی ہیں انسان، جانوروں اور زراعت کے لئے بیک وقت خطرناک خیال کیا جاتا ان میں ایک کو پارتھینیم گاجر بوٹی کہتے ہیں۔ جو کہ بہت خطرناک ہے ۔گاجر بوٹی ایک زہریلا پیلا پودا ہے دیکھنے میں دوسری جڑی بوٹیوں سے مختلف نظر آتا ہے۔ لیکن اس کو پہچاننا زیادہ اہمیت رکھتا ہے گاجر بوٹی موسم بہار اور گرمیوں میں اپریل سے نومبر تک تیزی سے پھیلتی ہے اس کا ایک پودا تقر یبا دس ہزار تک بیج پیدا کرسکتا ہے۔ اس کا قد ڈیڑھ میٹر تک ہو سکتا ہے گاجر بوٹی کے پردے والے ہوتے جو ہوا میں اڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوکر زمین میں اگنے کا سبب بنتے ہیں۔
اس کے ہلکے سے گہرے پتے ہوتے ہیں جن کے اوپر نازک سے بال ہوتے ہیں اور تنے پرگہری دھا ریا ں ہوتی ہیں۔گاجر بو ٹی سے ملتی جلتی دوسری جڑی بوٹیاں مثال کے طور پر ارٹی میزیا، بھنگ وغیرہ بھی پائی جاتی ہیں ۔لیکن پارتھینیم کو پہچاننا نہا یت ہی اہمیت رکھتا ہے۔ گاجربوٹی فصلا ت میں پھیل کر 40 فیصد تک پیداوار کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے ۔یہ بو ٹی جڑوں کے ذریعے ایسا کیمیکل زمین میں چھو ڑتی ہے جو دوسری فصلات کے بیج کو اگنے نہیں دیتی مثلا گندم ، کپاس، سبزیات وغیرہ پھلدار درختوں کو کمزور کرتی ہے جس سے پھلوں کی پیداوار متاثر ہوتی ہے جس سے کسانوں اور زمینداروں کو شدید نقصان اٹھانا پڑتا ہے 70 فیصد سے زیادہ لوگ جو اس جڑی بوٹی کے ساتھ کسی نہ کسی طریقے سے وابستہ ہوتے ہیں ان کو دمہ، کھانسی، جلدکی بیماریاں آنکھوں کی جلن ناک کی سوزش جیسی بیماریوں سے واسطہ پڑتا ہے۔گاجر بوٹی جانوروں کیلئے بھی زہریلا اثر رکھتی ہے اس میں ایسے زہریلے مادے پائے جاتے ہیں جو جانوروں کے منہ پر الر جی اور بھوک کو کم کردیتے ہیں۔ یہ زہریلے مادے جانوروں کے دودھ اور گوشت کی کوالٹی پر اثر انداز ہوتے ہیں جو استعمال کے قابل نہیں ہوتا اور جانوروں کی افزائش نسل بھی متاثر ہوتی ہے ۔پارتھینیم گاجر بوٹی پاکستان پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے بہت سے علاقوں میں پائی جاتی ہے صوبہ بلوچستان میں ضلع مو سی خیل میں آج سے 20 سال قبل ضلع گڑگوجی کے مقام پر غالباً پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے پھلوں کے کریٹ میں اس کا ایک خشک پو دا آپہنچا اور وہاں صرف ایک پودا قدرتی طور پراگا اور دیکھتے ہی دیکھتے تقریباً پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بلوچستان جو کہ خشک صوبہ ہے یہاں پر پانی نہ ہونے کے برابر ہے یہاں پر زندگی کا دارومدار بارشوں پر ہوتا ہے اور بلوچستان میں دو اضلاع موسیٰ خیل اور بارکھان جو مون سون کی حدود میں آتے ہےں یہاں پر صوبے کے باقی علا قوں کی نسبت بارشیں بہت زیادہ ہوتی ہیںیہ قدرتی طور پر سرو سبزوشاداب اضلاع ہےں۔ان اضلاع میں لوگوں کی زندگی کا دارومدار بھیڑ بکریوں پر ہے ۔اور یہاں پر کئی ایسی طاقتور جڑی بوٹیاںبھی پائی جاتی ہیں۔ جن کے کھانے سے ضلع مو سی خیل اور بارکھان کے جانور گوشت کے ذائقے میں بہت مشہورہیں یہاں پر پھلوں کے بہت سے باغات ہیں اوران اضلاع میں سبزیاں بھی زیادہ تعداد میں کاشت کی جاتی ہیں لیکن اب پارتھینیم( گاجر بوٹی) ان دو اضلاع میں پھیل چکی ہے۔اوربہت تیزی کے ساتھ پورے علاقے میں پھیل رہی ہے۔ اگر اس کے خاتمے کے اقدامات نہ کیے گئے تو یہ پورے بلوچستان میںپھیل کر تبا ہی پھیلا دے گی صوبہ بلوچستان پہلے سے بہت پسماندہ اور پھر مزیدپسماندہ ہوجائے گا ۔حکو مت بلوچستان اس کے خاتمے کیلئے مزید ضروری اقدامات کرے ۔آگا ہی مہم کی شروعات کرے ،اس جڑی بوٹی کے خاتمے کیلئے ضروری ادویات فراہم کرے اورلوگو ںکو اس کے نقصانات سے آگاہ کرے۔
ڈائر یکٹرپلانٹ پر وٹیکشن زراعت ڈاکٹر عارف شاہ جو ایک نہا یت قابل ومحنتی افسر ہیں انہوں نے اس بارے میں اپنی جدوجہد شروع کر رکھی ہے وہ پارتھینیم گاجر بوٹی کے تدارک کے لیے دن رات کوششیں کر رہے ہیں اور اعلیٰ حکام کو بھی اس کے بارے میں آگاہی دے رہے ہیںپارتھینیم گاجر بوٹی کے تدارک کے لیے صرف محکمہ زراعت نہیں با قی محکموں جنگلات اورلا ئیو سٹاک کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کریں کیونکہ یہ جنگلات اور حیوانات کو بھی بہت نقصان پہنچا رہی ہیں حکومت بلوچستان ان علاقوں میں جہاں پر یہ بوٹی ہے وہاںٹیمیںبھیجیںتاکہ اس گا جربوٹی کا خاتمہ ہوسکے زراعت پر اس کے جو اثرات مرتب ہوئے ہیں اس کے حل کے لیے محکمہ زراعت اپنا کردار ادا کرے اس کے جو اثرات جا نو روںاور انسانوں پر مرتب ہورہے ہیں بلوچستان میں گاجر بوٹی سے متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دے کر بھرپور اقدامات کیئے جائیں تاکہ ان کے خاتمے سے صوبہ بلوچستان میںفصلوں اور جانوروں کو تحفظ ملے تاکہ موسیٰ خیل اور بارکھان میں پیدا ہونے والی بیماریوں کا سد باب ہوسکے ۔
[…] (مسائل نیوز)گاجر کو غریبوں کا سیب کہا جاتا ہے کیونکہ غذائی اعتبار سے یہ […]