کوئٹہ (خ ن) پارلیمانی سیکرٹری برائے اطلاعات محترمہ بشریٰ رند نے اسمبلی سیشن سے خطاب میں کہا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر کی ہدایت پہ میر عثمان پرکانی کی قیادت میں ہزاروں کارکنان سریاب روڈ پر شہید عثمان خان کاکڑ کے جسد خاکی کے استقبال کے لئے وہاں موجود تھے اس صوبے کے لوگوں نے ثابت کیا کہ کس طرح لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔صرف ان کی اپنی پارٹی نہیں بلکہ اور بھی تمام پارٹیوں نے دیکھا کہ بلوچستان کے لوگوں میں کتنا اتحاد و اتفاق اور محبت و بھائی چارہ ہے۔ سوشل میڈیا سمیت دیگر تمام میڈیا کی دوست اکثر سوال پوچھتے ہیں کہ اپوزیشن کا کیا ہو گا آج اس فورم کی توسط سے سب پہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ مذاکرات کے لیے پہلی ہی رات ہم اپوزیشن کے پاس گئے انھیں دعوت دی کہ آئیں مل کر اس مسئلہ کو حل کریں۔ اپوزیشن ممبران کو کسی نے گرفتار نہیں کیا ہے وہ از خود تھانے گئے ہیں ہم مذاکرات کے لیے کئی بار ان کے پاس گئے دعوت دی کہ ایوان کی خوبصورتی اپوزیشن کے بغیر ادھوری ہے۔اب ابھی اپوزیشن کو دعوت دیتے ہیں کہ پچھلی باتوں کو بھول جائیں اور نہ کسی کی ذات سے معافی مانگیں بلکہ صرف اس ایوان سے معافی مانگیں جس کا تقدس انھوں نے 18 جون کو پامال کیا تھا۔بار بار مزاکرات کے لئے جانے کے باوجود اپوزیشن احتجاج ختم کرنے سے انکاری ہے۔اس دن اتنا سب کچھ ہوجانے کے باوجود بھی ہم صرف اس ایوان کی تقدس، صوبے کی ترقی اور یہ عوام اس ایوان سے مایوس نہ ہو کی خاطر بار بار اپوزیشن سے مذاکرات کے لئے جاتے ہیں۔ مگر وہ نہیں مان رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس صوبے کے تمام حلقوں کے مسائل خواہ ہو حزب اقتدار کے حلقوں کے ہیں یا حزب اختلاف کے اس صوبے کے مسائل ہیں۔ اور ہم سب نے مل کر ان مسائل کو حل کرنا ہے یہ دونوں کی مشترکہ زمہ داری ہے۔ بجٹ کے حوالے سے وزیر اعلی جام کمال خان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انکی انتھک محنت کی بدولت یہ متوازن اور بہترین بجٹ پیش ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ وزیر خزانہ و دیگر متعلقہ حکام و اسٹاف اور سیکرٹری پی اینڈ ڈی و ٹیم کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی جن کے مشترکہ کاوشوں سے اس کامیاب بجٹ پیش ہونا ممکن ہوا۔ محترمہ بشریٰ رند نے کہا کہ 2014 سے 2018 تک بجٹ 60 بلین روپے تھا جبکہ 2019.20 کا بجٹ 90 بلین کا تھا جو ہماری حکومت نے پیش کیا تھا اور موجودہ بجٹ 2012-22 جو 104 بلین روپے کا ہے اگر ان بجٹوں کا موازنہ کیا جائے تو واضح ہو جاتاہے کہ آیا صوبہ ترقی کی جانب گامزن ہے یا تنزلی کی جانب؟ ہمارے ترقیاتی منصوبے بڑھ گئے ہیں یا کم ہوگئے ہیں؟ ہم سب نے مل کر اس صوبے کو ترقی کی جانب گامزن کرنا ہے یہ کسی ایک فرد یا جماعت کی زمہ داری نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ برسوں کے مسائل ایک دن یا ایک سال میں حل نہیں ہوسکتے۔ ان مسائل کو حل کرنے میں وقت لگے گا۔ صرف شعبہ تعلیم کو دیکھ لیں تو پچھلے دو سالوں میں شیلٹر لیس سکولوں میں انفراسٹرکچر کی بحالی و تعمیر، سکولوں و کالجز کی آپ گریڈیشن اور بنیادی ضروریات پر جتنا کام ہوا ہے ماضی میں انکی نظیر نہیں ملتی ہے۔جو تھوڑے بہت سکول انفراسٹرکچر کی سہولت سے محروم ہیں وہ اسی سال مکمل ہونگے۔ 300 سکولوں کو اسی سال اپگریڈ کیا جائے گا۔ بچیوں کے تعلیم کے حصول میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے تمام گرلز سکولوں میں بسیں فراہم کردیں گے۔15 ڈیجیٹل لائبریریوں کا قیام بھی اسی سال عمل میں لایا جائے گا۔ اسی طرح خواتین سائلین کے لئے صوبے میں پہلے خواتین پولیس اسٹیشن کا افتتاح بھی گزشتہ ماہ ہوگیا ہے۔ جبکہ دیگر اضلاع میں مزید 20 خواتین پولیس اسٹیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا جہاں خواتین پولیس آفیسرز کے سامنے خواتین سائلین اپنے مسائل زیادہ بہتر انداز پیش کر سکیں گے۔اسی سال کھچی کینال فیز 2 پر بھی کام کا آغاز ہوگا۔ جس سے نصیر آباد میں سبز انقلاب آجائیگا اور ہمارے زمیندار بھی خوشحال ہونگے۔ انھوں نے کہا کہ ڈیرہ مراد جمالی شہر میں بائی پاس سٹرک بننے جا رہی ہے کوئٹہ شہر میں سریاب روڈ کی کشادگی عمل میں لائی جا رہی ہے جیسے شہر میں ٹریفک کی روانی میں کافی بہتری ائے گی۔ اسی طرح پچھلے سال اندرون سریاب 100 کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں مکمل ہو چکی ہیں۔ جبکہ باقی ماندہ سڑکیں، گلیاں اور سیوریج کا نظام کوئٹہ پیکج میں مکمل ہو جائیں گے جبکہ صوبے میں 2500 کلو میٹر پکی سڑکیں مکمل ہو چکی ہیں۔ اس سال سوئی سے کشمور، کوئٹہ سے زیارت سڑک بننے جا رہی ہیں۔ پنجگور میں زرعی کالج اور نوکنڈی میں مائنز اینڈ منرل یونیورسٹی بننے جا رہیہیں۔ اس کے علاؤہ صوبے میں 3 میڈیکل کالجز بنیں گے اور 25 ایمرجنسی سینٹرز بلوچستان نیشنل ھائی وے پر بنیں گے جو ایمرجنسی صورتحال میں عوام کو فوری ریلیف فراہم کریں گے۔ اسی طرح 18 اضلاع میں ڈائیلاسز سینٹر بنیں گے ان سینٹرز کے بننے سے صوبے کے دیگر علاقوں سے عوام کو ڈائیلاسز کے لئے اب کوئٹہ نہیں انا پڑے گا۔ گوادر میں میرین ریڈیو اسٹیشن اور پریس کلب،ایف ایم ریڈیو چینلز، نظامتِ تعلقات عامہ میں سمارٹ بیلڈنگ،میڈیا ٹاؤن، سبی اور لورالائی میں انفارمیشن افسیز بننے جا رہیہیں اور محکمہ کے ملازمین کے لئے دیگر محکموں کی طرح ہاؤسنگ سکیم عمل میں لایا جائے گا۔ محترمہ بشریٰ رند نے کہا کہ یہ وہ مختصر چیزیں ہیں جن کا انھوں نے یہاں ذکر کیا۔ صوبے کی تعمیر وترقی کے لئے اس بجٹ میں بہت کچھ ہے اپوزیشن پی ایس ڈی پی دیکھیں بنا احتجاج پہ چلی گئی ہے۔ موجودہ پی ایس ڈی پی میں بلا امتیاز تمام حلقوں کے لئے باقاعدہ سروے کے بعد عوامی ضرورتوں کے منصوبے رکھیں گئے ہیں۔ جس میں اپوزیشن کے حلقے بھی شامل ہیں۔ انھوں نے اپوزیشن کو دعوت دی کہ وہ ایوان میں آئیں اور صوبے کی تعمیر وترقی کے لئے صوبائی حکومت کے ہاتھ مضبوط کریں صوبے کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں اور احتجاج ختم کریں