مالا مال بلوچستان اور ہمارے بچے ۔۔۔ پانی کی شدید قلت
کوئٹہ ( رپورٹ / مسائل نیوز) بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کے مجموعی رقبے کا 43% ہے اور آبادی کے تناسب سے ملک کی کل آبادی میں اس کا حصہ صرف چھ فیصد ہے، یعنی بلوچستان کا رقبہ بہت وسیع اور آبادی کم ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہاں پانی کی قلت رہی ہے۔ یہاں سارا سال بہنے والے دریا نہ ہونے کے برابر ہیں۔ صرف نصیر آباد ، جعفر آباد اور کچھی کے اضلاع میں دریائے سندھ سے نکالی جانے والی نہروں سے آبپاشی کی جاتی ہے۔
مالا مال بلوچستان میں سی پیک جیسے پروجیکٹ کے ہوتے ہوئے بھی بلوچستان کے عوام کی حالات آج بھی نہیں بدلی۔ یہ بلوچستان کے بچے ہے جو کہ اکیسوی صدی میں بھی زندگی گزارنے کے طور طریقے آج بھی صدیوں پرانے ہیں۔
بلوچستان کے جن اضلاع میں پانی کی شدید قلت ہے ان میں ضلع گوادر میں گوادر، پسنی اور جیوانی، ضلع لسبیلہ میں حب اور گڈانی ٹاﺅن، ضلع کچھی میں بھاگ، ضلع چاغی میں نوکنڈی ، ضلع مستونگ میں مستونگ شہر، لو رالائی شہر،زہری کوئٹہ شہر اور ڈیرہ بگٹی میں سوئی شامل ہیں۔ پانی کی فراہمی کے ساتھ معیاری پانی کی ضرورت بھی بہت اہم ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہمارے ہاں پانی کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں پر سالانہ 14 ارب روپے خرچ کئے جاتے ہیں یونیسف کے مطابق ہسپتالوں کے 40% بستر پانی سے ہونے والی بیماریوں کے مریضوں کے استعمال میں ہیں، یو نیسف ہی کے مطابق ہمارے ہاں 33% اموات ہیپا ٹاٹس ، ٹائیفائیڈ، ہیضہ اوردستوں سے ہوتی ہیں جو غیر معیاری پانی کے استعمال کی وجہ سے ہو تی ہیں۔پانی کا معیاری ہونا بہت ضروری ہے ۔