صادق القُلوب (دوسری قسط)
صادق القُلوب (دوسری قسط)
تحریر : صدام لونی
اِس دنیا میں کوئی قوم یا قبیلہ ایسا نہیں ہے جس میں سب کے سب غیرت مند اور غیور اوصاف والے ہوں اور نہ ہی کوئی نسل ایسی ہے جو غداروں اور لالچیوں سے خالی ہو۔ دنیا میں کوئی علاقہ یا زمین کا ٹکڑا ایسا نہیں جو کسی قوم کا ہمیشہ سے آبائی وطن رہا ہو۔ زمین پر کوئی کسی علاقے کا مستقل اور ابدی وارث نہیں ہے۔ ہر ایک مہاجر ہے اور یہ سفرِ مسلسل ہے۔
زمین جسے ہم “ماں” کہتے ہیں اِسے “ماں” کہنے اور ماننے کے پیچھے ایک بہت معنی خیز بات چھپی ہے۔ ویسے کسی بھی قحط، آفت، مصیبت یا زلزلہ طوفان میں ہم اس “ماں” کو چھوڑ دیتے ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس زمین کا ہم قرض ادا کرے جس زمین سے ہم نے نمک کھایا ہوتا ہے۔ وہ زمین جو آپ اور آپ کے خاندان کو روزگار دیتا ہے، روٹی کا ٹکڑا دیتا ہے۔ دنیا میں کئی صدیوں سے بے شمار جنگیں اسی “ماں” کی غظمت کیلئے لڑی گئی ہیں لیکن معنی خیز بات یہ ہے کہ ہم رنگ و نسل ایک طرف کر کہ اس “ماں” کا قرض ادا کریں۔
زمین کو “ماں” مانتے ہوئے ایک غیور پشتون ابراہیم خان گاردی بھی تھا جس نے قوم و نسل کو بالائے تاک رکھتے ہوئے اس دھرتی ماں کا قرض چکھایا جو شاید ایک اکلوتا انسان کبھی پورا ہی نا کر سکے۔ ابراہیم خان گاردی وہ نر بہادر تھا جس نے صرف اُس وطن اور مٹی سے پیار کیا جس سے وہ نمک کھاتا تھا۔ ابراہیم خان گاردی مراٹھا فوج کا جنرل تھا۔
1761 میں پانی پت کی تیسری جنگ میں مراٹھا سلطنت اور افغانوں کا ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہوا۔
افغان کمانڈر احمد شاہ ابدالی کی تلوار کی دھار اور اُس کی بہادری کے چرچے زبان زدِ عام تھے۔ درانی سلطنت کا بادشاہ احمد شاہ ابدالی پوری دنیا پر اپنی حکومت چلانا چاہتا تھا۔ بڑے سے بڑا حکمران احمد شاہ کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک دیتے تھا، درانی سلطنت کا جھنڈا پورے خطے میں اپنی آب و تاب کے ساتھ لہرا رہا تھا کیونکہ احمد شاہ کے ساتھ وزیر ولی خان، حافظ رحمت خان بڑیچ، زین خان سرہندی جیسے جنگجو افغان پشت پناہی کر رہے تھے۔ احمد شاہ کو روحل کھنڈ کی طرف سے بھی حمایت حاصل تھی اور اِس کے علاوہ اودھ سلطنت، مغلیہ سلطنت اور خان آف قلات نے بھی اپنی طرف سے اُنہیں ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا تھا۔
احمد شاہ کے پاس کُل 41800 افراد کی فوج تھی۔
مراٹھا سلطنت کا بادشاہ شیوا جی مہاراج اپنی پوری فوج کے ساتھ ابدالی کے دانت کھٹے کرنے کیلئے تیار تھا۔ مراٹھا فوج کا کمانڈر سداشی راؤ تھا۔ مراٹھا فوج میں وشواس راؤ بھٹ، شمشیر بہادر، یشونت راؤ اور پشتون جنرل ابراہیم خان گاردی تھا۔ ابراہیم خان نے دس ہزار جنگجو دستے پر سرپرستی کی اور مراٹھوں کی کُل فوج 55 ہزار افراد پر مشتمل تھی۔
پانی پت کی جنگ جتنی تاریخی تھی اُتنی ہے لرزہ خیز اور جنگی ساز و سامان سی لیس تھی۔ ابراہیم خان کو مراٹھوں کے توپ خانے چلانے کا کمان بھی حاصل تھا اور جنگ میں احمد شاہ کی فوج کو بھاری نقصان پہنچایا۔ کئی دنوں کی لڑائی کے بعد احمد شاہ کے کمانڈر شجاع الدولا نے ابراہیم خان گاردی کو اس وقت گرفتار کیا جب مراٹھا فوج کے سرکردہ کمانڈر اپنی جان کی بازی ہار گئے تھے۔ ابراہیم خان کو گرفتار کرنے کے بعد احمد شاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔
اب توجہ طلب بات یہ تھی کہ ایک پشتون بادشاہ احمد شاہ ابدالی کے مقابلے میں ہندو شیوا جی کی فوج کمانڈر کا ایک پشتون مسلمان ابراہیم خان گاردی تھا جو اپنے دو بیٹوں اور اپنے وفادار قبیلے والوں ساتھ ہمت و شجاعت سے لڑتے ہوئے زخمی شیر بنا ہوا تھا۔ احمد شاہ ابدالی نے اسے طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ “تم ایک مسلمان اور پشتون ہونے کے باوجود ایک ہندو مرہٹے کی فوج کیلئے لڑ رہے ہو، تمہیں اس پر شرمندگی محسوس نہیں ہوئی، تم اگر مجھ سے معافی مانگ لو تو میں تمہیں اپنی فوج میں اعلیٰ منصب عطا کر دونگا اور تمہاری جان بخش دونگا”۔
اِس پر ابراہیم خان گاردی نے احمد شاہ کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ “میں حلال کا بچہ ہوں کیونکہ نمک اور زمین کا حق ادا کرتا ہوں، اور اُس سے جنگ لڑتا ہوں جو میرے گھر پر حملہ کرتا ہے۔ میں اپنے ملک کا مسلمان ہوں”۔
احمد شاہ ابدالی نے للکارتے ہوئے کہا کہ “پیشوا کا غلام بن کر تمہیں کیا حاصل ہوا؟ ”
ابراہیم خان نے اپنے تاریخی جواب میں کہا کہ “میں اُس گروہ کا وفادار ہوں جس نے آپ کی طرح ایک پشتون کا سر اپنی قدموں میں نہیں جکھایا، جنگ کی آخری گھڑی میں میرا سر قبول کرنے کی بجائے میرے اِس سر کے بدلے اُس ہندو کمانڈر نے اپنا سر کٹوایا، تمہارے سامنا جکھنا پشتون ولی اور پشتون روایات کے منافی ہوگا جو میرے بس میں نہیں ہے، میں اپنی آنے والی نسل کیلئے بے وفائی کا طعنہ چھوڑ کر نہیں جاونگا”۔
پنڈت رام راج کے بقول ابراہیم خان کے اوپر سات دن تک مسلسل تشدد کیا گیا اور اُس کے زخموں پر زہر ڈالا گیا جس کی وجہ سے اس کی موت ہوئی۔
ابراہیم خان کی موت کے بعد اس کے خاندان اور محافظوں نے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے مرہٹوں کا ہمیشہ ساتھ دیا۔
درانی سلطنت کا بادشاہ احمد شاہ چونکہ پانی پت کی یہ جنگ جیت چکا تھا لیکن مراٹھوں کے اس سپہ سالار پشتون مسلمان جنگجو ابراہیم خان گاردی نے اپنا نام تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر کر دیا تھا۔
دکن کے ہندوؤں کی کہانیوں، گیتوں، فلموں اور ڈراموں میں ابراہیم خان کا کردار ویسے ہی زندہ ہے جیسے مسلمانوں کی تاریخ میں احمد شاہ ابدالی کا کردار۔۔۔
بنگلہ دیشی ڈرامہ نگار منیر چوہدری نے اپنے تاریخی ڈرامہ سیریل میں ابراہیم خان کے کردار کو بہت شائستگی سے پیش کیا اور انڈین ڈرامہ نگار مکھیش کھنہ نے اپنے ٹی وی سیریل “دی گریٹ مرہٹہ” میں ابراہیم خان کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
اللہ کا دستور ہے کہ وہ نسل و رنگ کے تصور کو ملیا میٹ کرتا ہے، وہ ایک ہی خاندان بنی ہاشم میں اپنے سب سے پیارے رسول سیدالانبیاء کو پیدا کرتا ہے اور اسی بنی ہاشم خاندان میں اپنے بد ترین دشمن ابولہب کو بھی پیدا کرتا ہے اور پورے قرآن میں صرف ایک شخص “ابولہب” کا نام لیکر اس کے جہنمی ہونے کی تصدیق کرتا ہے۔
بیشک ابراہیم خان گاردی نے رنگ و نسل، قوم و قبیلے کے اوپر زمین پر فوقیت دی، وہ زمین جسے وہ ماں کا درجہ دیتا تھا۔