! یہ تعلیم اور ہم ۔۔۔۔
از قلم : سید نور صلاح الدین
قارئین کرام! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے کہ” کُلُ مُولُودُ یُولِدُ عٙلٰی فِطرٙتہ ”
یعنی ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت سلیم لے کر پیدا ہوتا ہے اس حدیث پاک سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہر بچے کی ذہن کی تختی فطرتً صاف ہوتی ہے بقول اقبال
“تو اپنی سرنوشت اب اپنے قلم سے خود لکھ
خالی رکھی ہے خامہ حق نے تیری جبیں “
مگر جب وہ بچہ بڑا ہونے لگتا ہے تو اس کے والدین اساتذہ اور معاشرہ ہے جو اس کے ذہن کی تختی پر اپنی مرضی کی تحریر لکھنا شروع کر دیتے ہیں ۔حدیث کا مفہوم میں ہے کے یہ اس کے والدین ہیں جو اسے محجوسی،یہودی نصرانی یا عیسائی اور مسلمان بناتے ہیں یہ وہ حقیقت ہے جس سے دنیا کے کسی بھی اہل علم کو انکار نہیں۔آج اگر ہم اپنے وطن میں قحط الرجال جیسی قدرتی آفتوں میں مبتلا ہیں اس کی بنیادی وجہ علم کا نہ ہونا ہے یا علم کے ہوتے ہوئے بھی فقط رٹو طوطا بن کر ذہنی اور تخلیقی صلاحیت کا نہ پایا جانا ہے۔آج ہمارے پرائیویٹ اور سرکاری تعلیمی ادارے جو علم کے نام پر طلبہ کو فقط رٹو طوطا بنانے پر منحصر ہے
جنہوں نے طلبہ کی ذہنی اور فکری صلاحیت کو بلکل ختم کرکے رکھ دیا جو طلبہ کو تعلیم تو دے رہے ہیں مگر اخلاقیات سے بالکل عاری ایک وقت ہوتا تھا جب تعلیمی اداروں میں طلبہ کی تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی زور دیا جاتا تھا افسوس صد افسوس اس نظام تعلیم کا آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے-
آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ اس ملک کو بنے 73تہتر برس بیت چکے مگر افسوس کے آج تک ہم اس ملک میں اپنا تعلیمی نظام رائج نہیں کرسکے اب تک ہمارا تعلیمی نظام لارڈ میکالے کی فلاسفی پر قائم ہے جو 1835ء میں کیا گیا اور ابھی تک اپنی کلاسیکل شکل میں موجود ہے یہ اس وقت رائج کیا گیا جس میں اس کا مقصد ہے کہ ایسا طبقہ پیدا کرنا تھا جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے لئے کلرکس اور غلام پیدا کرے۔ یہ وہ نظام ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری مشین کے پرزے تیار کرتا ہے جوکہ سرمایہ داروں کے سرمائے میں مسلسل اضافہ بڑھانے اور ریاستی مشینری چلانے کے لیے ناگزیر ہے ۔اب اس نظام سے فارغ التحصیل ہونے والے بہت سے احباب اخلاقیات سے عاری ہے بقول اقبال
” گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ اللہ”
لارڈ میکالے کا بنیادی فلسفہ یہی تھا کہ ان کو ذہنی اور فطری طور پر اپنا غلام بنا دیا جائے کیونکہ وہ جان چکا تھا کہ اب ہم ان پر مزید حکمرانی نہیں کرسکتے یہ ملک اب ہرحال میں آزاد ہوگا اگر ہم ان پر مزید حکمرانی چاہتے ہیں تو اس اس کا واحد حل ہے کہ ان کو ذہنی اور فکری طور پر غلام بنا دیا جائے اور ان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو بالکل ختم کر دیا جائے بقول شاعر “ارے ہم لوگ نہ قومی نہ عوامی ہیں اب تک
۔ ۔ ۔ انگریزی و انگریز کے حامی ہے اب تک
. تہتر برس بیت چکے گر افسوس
اس قوم میں آثار غلامی ہیں اب تک “
لارڈ میکالے لکھتا ہے ” کہ وہ ہندوستان کے ھر مکتبہ فکر سے ملا، مذھبی طبقات، علما اور تاجر وغیرہ کوئی شخص جھوٹ نہیں بولتا تھا. کوئی مانگنے والا نہیں تھا.کوئی بد اخلاق نہیں تھا.سارے آزادی کو ضروری سمجتھے تھے اور غلامی کو لعنت سمجتھے تھے.اس نے رپورٹ میں لکھا اسی قوم کو زیادہ عرصے تک غلام نہیں بنایا جا سکتا. اس سے کہا گیا کہ حل کیا ہنے.اس نے کہا ایسا نظام تعلیم لایا جاۓ جو اجتماعیت سے کاٹ کر انفرادیت پیدا کرے.بے حیائی کا تمدن فروغ پائے .” اور قارئین کرام 80 فیصد لارڈ میکالے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا . جب انگریز ہندوستان میں آیا تو یہاں پر ٩٥ فی صد تعلیم تھی باقی 5 فی صد لوگ اعلی اخلاق کے مالک تھے. انگریز جب یہاں سے واپس گیا تو8 فی صد تعلیم یافتہ طبقہ تھا. . انگریز نے ظالمانہ نظام قائم کیا. ظالمانہ نظام غربت اور قحط پر مشتمل ہوتا ہنے. انگریزوں نے مصنوعی غربت پیدا کی یہاں تک کہ ہندوستانی 5 روپے ماہوار پرانگریز کے ملازم ہونے پر مجبور ھو گے اس تعلیمی نظام کے لئے اتنا ہی کہ سکتا ہوں بقول نظیر اکبر آبادی
“ہم تو سمجھے تھے لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ “
آج ہمارے اس سرمایہ دارانہ معاشی نظام کیوجہ سے پورا معاشرہ طبقات میں تقسیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی نظام بھی طبقاتی ہے اور حقیقی اور انسانی شعور والا معاشرہ پیدا کرنے سے قاصر ہے یہ نظام سوال اٹھانے والوں کو مجرم مجرم جانتا ہے اور تنقیدی سوچ کو ہرگز برداشت نہیں کرتا اس اور سوچ کی نفی کرتا ہے۔کیونکہ اس اس نظام کو چلانے والے آقا ہرگز یہ نہیں چاہیں گے کہ ان کے غلام ان پر اور معاشرے میں موجودہ تعلیمی نظام کے پر سوال اٹھاتے ہوئے اس نظام کو چیلنج کریں اور تبدیلی کا سوچیں۔ اس تعلیم کا مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہے جو حقیقت کو جامداور ناقابل تبدیلی سمجھتے ہوئے قبول کر لیں۔اسطرح وہ ان طبقات کی ظلم و بربریت کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیں گے تعلیم ہمارے سماج میں ایسی صنعت کے طور پر ابھری ہے جسکا مقصد محض شرح منافع بڑھانا ہے۔انسانی ترقی اور آزادی اُن کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ یہاں پر سرمایہ داروں کے بچوں کے لئے عالیشان عمارتوں میں تعلیم کا انتظام تو موجود ہے مگر دوسری طرف پس ہوا اور بنیادی ضروریات سے محروم طبقہ غلاظت سے پر اور بنیادی بنیادی انفراسٹرکچر سے محروم سرکاری اسکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے پر مجبور ہے یہاں سرکاری ، نیم سرکاری اور شاندار نجی درسگاہوں سے لیکرگلی محلوں میں کھمبیوں کی طرح اگنے والے سکول سب موجود ہیں۔ اور اپنی اپنی اوقات کے مطابق تاریکیاں اور جہالت بانٹ رہے ہیں۔ ان سب کے اپنے اپنے نصاب اور پڑھانے کے مختلف طریقہ کار ہیں۔ امتحانی طریقہ کار غیر صحت مند مقابلے کو فروغ دیتا ہے۔(نتائج کے خوف سے بعض نوجوان توخودکشی تک کر لیتے ہیں) یہ غیر صحت مند قسم کا مقابلہ ظلم پرکھڑے اس نظام میں جبر اور تسلط قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے.ہمارا تعلیمی نظام واضح طور پر طبقات پر بٹا ہوا ہنے اک طرف وہ تعلیمی ادارے ہیں جہاں سرمایاداروں اور جاگیرداروں کے بچے پڑھتے ھیں اور ان اداروں میں عام بندہ اپنے بچوں کے داخلے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور یہ طبقہ key پوزیشن پر تعینات ھو جاتا ہے اوراس نظام کے وجود کو برقرار رکھتا ہے اور سامراج کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے . دوسری طرف وہ تعلیمی ادارے ھیں جہاں سہولیات نہ ہونے کے برابر ھیں اگر کوئی ا پنی محنت کے بل بوتے پر تعلیم حاصل کر بھی لےتو حق حلال کا روزگار ملنا مشکل ہے جس کے لیے رشوت اور سفارش چاھیے جو عام آدمی کے پاس نہیں ہےآپ صوبہ بلوچستان کو ہی لے لیں یہاں فارغ التحصیل ہونے والے بہت سے طلبہ فکر معاش نہ ہونے کے سبب ذہنی اور فکری طور پر اس قدر دباؤ کا شکار ہیں کے وہ اپنی اصل اسناد پھاڑ رہیں . الغرض اس رٹا سکولنگ سسٹم میں دو قسم کے لوگ تیار ہوتے ھیں اک کا کام حکمرانی کرنا ہنے اور دوسرے کا کام کلرکی کرنا ہنے. دینی تعلیمی اداروں کے پاس بھی دین اور دنیا کی تفریق پیدا کی گئی ہے ان کا زیادہ تر زور مسلکی اختلافات پر ہوتا ہنے اس طریقہ سے ان کے اندر شدت پسندی اور انتہا پسندی پیدا کی جاتی ہے جس کو نظام آسانی کے ساتھ اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جب مختلف اداروں سے مختلف قسم کے ذھن تیار کیے جائیں تو وہاں پر ایک قوم کا وجود میں آنا ممکن نہیں ہوتا. یہ تعلیمی نظام مذھبی ، لسانی، علاقائی، اختلافات پیدا کر کے لوگوں کو آپس میں لڑاتا ہے اور سسٹم کو شعور سے بلکل عاری کر دیتا ہے اور اس طرح انگریز کی پالیسی لڑاؤ اور حکومت کرو کی تکمیل ہوتی ہے. ہمارے تعلیمی ادارے سرمایا کے زور پر چلتے ھیں ، پرائیویٹ سکولوں کا یہ حال ہے کہ اچھے نتائج کے لیے تعلیمی بورڈز میں پوزیشن کے لیے بھی سرمایا کی ضرورت ہوتی ہے ، نقل کے کلچر کو خاص کر گورنمنٹ اداروں میں پروموٹ کیا جا رہا ہے ، یونیورسٹیز میں جو طالبعلم کو قابلیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ تعلقات کی بنیاد پر پوزیشن پاتے ھیں . ریسرچ کا تصور بہت کم ہے زیادہ تر کاپی پیسٹ چلتا ہے جس کی وجہ سے معاشرتی مسائل کا کے پاس کوئی حل نہیں اور انگریزی زبان کو قابلیت کا معیار جانا جاتا ہے.
آج کا طالب علم …آنے والے کل میں کیا کرسکتا ہے ، اگر اِس بات کا اندازہ ہمارے اساتذہ اور والدین کو ہوجائے تو خدا کی قسم وہ مارے حیرت کے انگشت بدندان رہ جائیں۔ میں آپکو بتاتا ہوں کہ آج کا طالب علم ، کل کا معمار کیسے ہوسکتا ہے۔
اگ آپ لوگ ، جو ہمارے بڑے ہیں سچے دل سے چاہیں اور ہمیں صحیح نظامِ تعلیم کے ساتھ ساتھ درست نصاب ِ تعلیم بھی فراہم کریں اور ہماری اخلاقی تربیت پر بھی زور دیں تو ہمارا آج کا طالب علم آنے والے کل میں قومی ترقی کے اوجِ سماوات کو چھُوسکتا ہے۔سنگلاخ پہاڑوں کو سونا اگلنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ چٹیل میدانوں کو فردوسِ بریں بنا سکتا ہے، بنجر زمینوں کو گل و گلزار کر سکتا ہے، منہ زور دریاؤں کو دستِ اطاعت دراز کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ کانٹوں کو پھول، مٹی کو سونا، دلدل کو کھلیان، پتھر کو موم، ریت کو شیشہ، طوفان کو نسیم بہار، خزاں کو بہار اور خاک سے فولادِ ناب بنا سکتاہے مگر کاش کے آپ کے دل میں اتر جائے میری بات
بہتریںانداز تحریر مگر ھمارے ان رٹو سکولوں کے علاوہ اور کوئی سہارا نہیں