ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
از قلم : سید نور آغا
قدرت نے انسان کو اسرار فطرت کا امین بنایا ہے اسے تسخیر کائنات کرنے ہنر بخشا- اسے نا ممکنات کوممکنات میں بدلنے کا قرینہ بخشا ہے _فطرت نے چاند،سورج ،ستاروں،زمین کی وسعتوں اور کوہ و صحرا کی بلندیوں کو اس کے قدموں میں ڈال دیا ہے تاکہ یہ اس بزم ہستی کوفطرت کےانوار سے منور کر سکےسنگلاخ زمینوں سے گل و لالہ اٹھا سکے
دریاؤں کے رخ موڑ سکے یہ زرخیز مٹی کو نم کرنے کی محبت ہی تھی جو شاہ حسین نے عالمی سطح پر باکسنگ میں اس ملک کا لوہا منوایا اور اس زرخیز مٹی کو نم کرنے کی جستجو ہی تو تھی جو عبدالقدیر خان نے تمام تر مراعات کو ٹھکرا کر اس ملک کو ایٹمی قوت بنا کر دم لیا ،محسن پاکستان جس کی نم کی گئی مٹی کو یہ قوم فراموش کر چکی ہے پھر بھی کسمپرسی کی زندگی گزارنے کے باوجود مٹی کو زرخیز کرنے میں سرگرداں ہیں اور یہ صدا دے رہے ہیں
“ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی کی تھی ”
اگر یہ مٹی بڑی زرخیز نہ ہوتی تو ہمارے نوجوان یہ پیغام کبھی نہ دیتے
“اٹھائیں لاکھ دیواریں طلوع سحر تو ہو گی
یہ کب کے پاسباں کب تک ہم کو راستہ دیں گے
ہمیں تو شوق ہے اہل جنوں کے ساتھ چلنے کا
وطن کے ذرے ذرے کو چمکا دیں گے “
آج معاشرے کی اس بے حسی پر افسوس صد افسوس ہے کہ آج ہماری نوجوان نسل کی مٹی میں نمی نہیں بلکہ ملاوٹ ہے کیونکہ آج ہمارے درخت کو جھوٹی سیاست کے کیڑے کھا رہے ہیں آج ہمارے جس تنے کو فرقہ پرستی کا دیمک کھا رہا ہے یہی وجہ ہے یہاں آب زمزم بھی مٹی کو نم نہیں کر سکتا جہاں نام نہاد ملا اور پیر سردار ڈاکو سیاست دان عوام کو مفلوج کرکے رکھ دے جہاں خانقاہی اسلوب و مدارس دینیہ کے اسلوب کو فراموش کر دیا جائے جہاں نام نہاد تعلیمی ادارے تعلیم کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم کریں اور طلباء کی ذہنی تخلیقی صلاحیت کی مت مار کر رکھ دیں تو عالی وقار!وہ نوجوان نسل کی تربیت کون کرے گا انہیں مٹی کو نم و زرخیز کرنے کا ہنر کون سکھائے گا بقول اقبال
“گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
یہ فقط دل کو بہلانے کا ایک بہانہ ہے کہ وقت زوال کا ہے اپنے دل کی کنولوں کو آپ جلانے کے بجائے منتظر فردا کہ کوئی موسی آئے کوئی اقبال کوئی قائد آئے جو ہماری مٹی کو نم کرے یہ اٹل حقیقت ہے کہ کائنات کے اس گورکھ دھندے میں وہی عروج پاتے ہیں اپنا زمانہ آپ پیدا کرتے ہیں زمانہ بھی انہی افراد کو سلام کرتا ہے جو اپنے بازوؤں پر بھروسہ کرتے ہیں اپنی صلاحیتوں پر اعتماد رکھتے ہیں علم کو خضر راہ اور عمل کو اپنی قوت بناتے ہیں مخالف موج کے سامنے سینہ سپر ہو جاتے ہیں کسی سہارے کی تمنا نہیں کرتے بلکہ اپنی قوت عمل کا اس شان سے مظاہرہ کرتے ہیں کہ کنارے خود بخود ان کے قدم چومتے ہیں۔اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے شعر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سرگرداں ہوتے ہیں کہ
“نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی ”
اور وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ
” ناکام آرزو ہے سہاروں کی زندگی
توہین جستجو ہے سہاروں کی زندگی “
مٹی کو وہی قومیں نم کر سکتی ہیں جو غلامی کی زنجیر خود توڑیں آپ تاریخ عالم پر نظر دوڑائیں فاتحین کے کارنامے دیکھئے ، سائنسدانوں کے کمالات کا مشاہدہ کیجئے، غیرت مند رہنماؤں کے زندگی کے اوراق دیکھیے یہ لوگ جب سہارے توڑ کر آگے بڑھے تو رحمت خداوندی جوش میں آگئی اور سہاروں سے بے نیاز ہو کر آگے بڑھنے والوں کے سر پر تاریخ نے عظمت کا تاج رکھ دیا۔
باہمت افراد مادی چیزوں کا نہیں بلکہ فقط حق کا سہارا ڈھونڈتے ہیں۔اور قدرت بھی انہی کا سہارا بنتی ہے ۔آج پھر ضرورت ہے اس امر کی آج ہم پھر اٹھ کے اس مٹی کو نم کرے۔ اٹھے اور اٹھ کے ان سہاروں کے بت پاش پاش کر دیں۔غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر اپنی دنیا آپ پیدا کر کے ہمیشہ کے لئے جاوداں دہ ہو جائیں اٹھے اور عالم اسلام کی غلامی کی زنجیریں توڑ کر اپنا مقام بنائے اور ایک نئے دور کا آغاز کرے۔ مگر اس کے لئے ضروری ہے ہم حق بات کرے مگر افسوس یہاں تو حق کہنے والو پہ قفل پابندی لگا کے انہیں شوریدہ ذہن تصور کیا جاتا ہے مگر پھر بھی ہم نہ امید نہی اور ارباب اختیار کو یہی کہتے ہیں کے اب ہوش کے ناخن لو تا کہ