MNN News
مسائل آپ کے اجاگر ہم کرینگے

“مٹی کا قرض”

3 956

Get real time updates directly on you device, subscribe now.

“مٹی کا قرض”

تحریر: صدام لونی

- Advertisement -

دنیا میں کسی قوم و قبیلے کے عروج و زوال کا مشاہدہ کیا جائے تو ان کی کامیابی و ناکامی میں یہی چیز مشترک نظر آتی ہے کہ جنہوں نے اس دنیا پر رہ کر محنت و جسجتو اور جہد مسلسل کی زندگی بسر کی، حوادثات و مصائب کا بھرپور تحمل و برداشت سے مقابلہ کیا، مشکل اور کڑے وقت پر حوصلہ مندی اور خود اعتمادی کا ثبوت دیا، علم و دانائی پھیلائی اور اپنے وطن و زبان سے سچی محبت رکھتے ہوئے اس کیلئے اپنی ذات سے کچھ دیا، کامیابی نے ایسے ہی لوگوں اور اقوام کے قدم چومے ہیں۔
منزل نے ان اوصاف کی حامل اقوام کا آگے بڑھ کر استقبال کیا ہے۔
اس کے برعکس جن قوموں نے تعیش پسندی، تن پسندی، نفسانی زندگی، علم و قلم سے دور رہ کر تخریب کاری و شدت پسندی کی طرف راغب رہے ان اقوام کا ستارہِ اقبال بہت جلد غروب ہوا۔ ایسی قومیں تاریخ کے اوراق میں قصہِ پارینہ بن کر رہ گئے۔ اسی کو علامہ اقبال نے یوں بیان فرمایا ہے۔۔۔

“میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر اُمم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر”

اقبال نے اس شعر میں یہ بتلانے کی کوشش کی ہے کہ قوموں کے عروج کا دور وہ ہوتا ہے جب وہ مسلسل محنت اور لگن سے معمور ہوں۔ وہ اپنے مقصد سے ایک لمحہ کے لئے بھی غافل نہ ہوں، ان کی ہمت و طاقت چیتے کی مانند ہو اور ان کی نظر شاہین کی طرح ہو، ان کے اذہان علم و عقل والی باتوں کی طرف ہو اور جس بھی خطے میں یہ آباد ہوں اس مٹی کیلئے کچھ کارآمد کیا ہو۔ مگر جب یہی قوم اپنے آباؤ اجداد کے اوصاف کو ایک ایک کرکے ترک کرنے لگتی ہے تو وہ اپنی پہچان کھو دیتی ہے۔ اِسی غفلت و لاشعوری کی حالت میں اللہ تعالیٰ ان پر ایسا عذاب نازل کر دیتا ہے کہ مقدر میں سکون و امن نام کی چیز ان سے کوسوں دور چلی جاتی ہے۔
ذیل میں چند ایک تاریخی واقعات کو قلم بند کرونگا جس کے ذریعے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ جہدِ مسلسل، عمل پیہم اور اپنی ذات و وطن سے دیرینہ محبت ہی انسان کے لئے کامیابی کے میدان مہیا کرتی ہے۔ اس کے برعکس لاپرواہی، شر پسندی اور کتاب سے کنارہ کشی والی دنیا میں رہ کر ترقی و خوشحالی کو کبھی حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں کو ہی لے لیں کہ جسمانی اعتبار سے بالکل نحیف، جنگ کے وسائل و اسباب بھی پوری طرح میسر نہیں لیکن اس کے باوجود ایمان و اسلام اور وطن سے وابستگی نے ان کے اندر خود اعتمادی و خود شناسی کی وہ لہر پیدا کردی تھی کہ جس طرف رخ کرتے کامیابی ان کے قدم چومتی تھی، لوگ ان کے چاہنے والے بن جاتے تھے۔
جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایران و روم میں فاتحانہ شان کے ساتھ داخل ہوئے تو وہاں کے باشندوں نے اِن کی خستہ حالی دیکھ کر یوں سمجھا کہ شاید ان کے پاس پہننے کو کپڑے نہیں۔ اگر انہیں کپڑے اور زندگی گزارنے کا کچھ سامان دے دو تو وہ یہاں سے الٹے پاؤں واپس چلے جائیں گے جبکہ اِسی سادگی نے انہیں کامیابی کی راہ پر ڈال دیا تھا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پیادہ اور اپنے غلام کو اونٹ پر بٹھائے ہوئے خود نکیل تھامے ستر سے زائد پیوند لگے کپڑے پہنے جب بیت المقدس میں داخل ہونے لگے تو حضرت عبیدہ بن جراح گورنر شام نے ان سے کہا،
“اے امیرالمومنین !! آپ تھوڑی دیر کیلئے ان پیوند زدہ کپڑوں کی بجائے میرے کپڑے پہن لیں یہ لوگ اچھا گمان نہیں کریں گے”۔
اس موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیا وہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ
“اللہ رب العزت نے ہمیں جو عزت دی ہے یہ عزت ہمیں اسلام کی بدولت ملی ہے نہ کہ ان قیمتی پوشاک سے۔۔۔”
حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی شخصیت اسلام کا جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ جنہوں نے اپنے دورِ حکومت میں ہر اعتبار سے دور رسالت اور دور خلفائے راشدین کے عہد کی یاد تازہ کردی اور ان کو خلیفہ خامس کہا جاتا ہے، مولانا ابوالحسن ندوی لکھتے ہیں۔
’’ایک قریشی کہتا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی مختصر مدت خلافت میں یہ حال ہوگیا تھا کہ لوگ بڑی بڑی رقمیں زکوٰۃ کیلئے لے کر آتے تھے کہ جس کو مناسب سمجھا جائے دے دیا جائے لیکن مجبوراً واپس کرنی پڑتی تھیں کہ کوئی لینے والا نہیں ملتا تھا‘‘۔
اِن ظاہری برکات کے علاوہ بڑا انقلاب یہ آیا کہ لوگوں کے رجحانات بدلنے لگے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نوافل اور ذکر و اذکار، عبادات، علم و دانائی والی گفتگو مجلسوں کا موضوع بن گیا جہاں چار آدمی جمع ہوتے تو ایک دوسرے سے پوچھتے کہ تمہارا رات کیا پڑھنے کا معمول ہے؟ تم نے کتنا قرآن ختم کیا؟ مہینے میں کتنے روزے رکھے؟
ہندوستان میں مغلیہ دور کی بنیاد 933 سے 1154 میں بابر کے ہاتھوں پڑی جس کے تخت پر یکے بعد دیگرے کئی طاقتور بادشاہ متمکن ہوئے۔ اسی سلطنت کے آخری بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر تھے۔ جو اپنی امانتداری، نیک طبیعت، اپنے اوصافِ عالیہ، فتوحات کی کثرت اور دائرہ اسلام کی وسعت کی وجہ سے پوری تاریخ میں امتیازی مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے 90 سال کی عمر پائی اور نہایت شان و شوکت اور طمطراق سے پچاس سال تک حکومت کی۔
ان کی وفات 1188 میں ہوئی۔ اس کی سلطنت کابل کندھار سے لے کر دکن تک تھی۔ اس وسیع و عریض سلطنت کی حکمرانی کے ساتھ شریعت کے تمام احکام و فرائض، سنت و نوافل، اذکار اور تلاوت قرآن کے مکمل پابند تھے۔ فتاویٰ عالمگیری جس کو فقہ و فتاویٰ کی کتابوں میں ایک امتیازی شان حاصل ہے۔ یہ ان کی علم دوستی کا واضح ثبوت ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر کی حکمرانی کا دور سلطنت مغلیہ کے عروج کا دور تھا۔ اس کے بعد تمام جانشین، سخت نا اہل اور سست طبیعت تھے وہ یورپ کے خطرات کا پامردی سے مقابلہ نہ کرسکے۔ مولانا ابوالحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ مغلوں کے زوال اور ان کی شکست و ریخت کے بارے میں لکھتے ہیں۔
“ہندوستان میں مغل حکمرانوں نے جس شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی ہے ہندوستان کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس نے پورے برصغیر کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک اپنے زیرنگیں کرلیا تھا لیکن جب اس مضبوط حکومت میں ضعف و پیروی کے آثار ظاہر ہوئے تو امراء و ذمہ داران حکومت کی یہ حالت ہوگئی تھی کہ وہ تفریحات اور دل بہلانے والے کاموں میں مصروف تھے۔ وہ ہر وقت شان و شوکت اور عیش و نعم میں مشغول رہتے۔
ہندوستان کا مغل بادشاہ تو اپنی تفریحات اور تعیشات کی وجہ سے رنگیلے کے نام مشہور ہوگیا اور بعد میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا”۔
گوادر کی فاتح اور پاکستان کی محبت میں گُم ایک گُم نام ہیرو اور محسنہ جس کو شاید ہی بیس کروڑ ہجوم میں سے کوئی جانتا ہو۔
کون سوچ سکتا ہے کہ ایک پاکستانی نژاد آسٹرین خاتون جس کا نام وکٹوریہ تھا، جس کی وطنِ پاکستان کیلئے لازوال محبت و ایثار کا جذبہ اتنا زیادہ تھا کہ خود تن تنہا اپنے مدِمقابل چار عالمی طاقتوں سے ایک قانونی جنگ لڑ کر 15 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر مشتمل گوادر جیسی اہم ترین کوسٹل اسٹیٹ پاکستان میں ضم کروائی تھی۔
یہ باہمت اور وطن سے الفت کرنے والی خاتون بیگم وقار النساء نون تھی جو کہ پاکستان کے ساتویں وزیر اعظم کی بیوی تھی۔ بیگم وقارالنساء نون کا اسلام قبول کرنے سے پہلے وکٹوریہ نام تھا۔
گوادر 1956 تک عالمی استعمار کے اس ناجائز قبضے میں تھا جس کی داستان احسان فراموشی اور عیاری کا ایک نادر نمونہ ہے۔ گوادر اسٹیٹ اٹھارہویں صدی کے خان آف قلات، میر نصیر نوری بلوچ کی ملکیت تھی لیکن اس علاقے پر اپنا تسلط قائم رکھنا خان صاحب کیلئے کافی مشکل ثابت ہو رہا تھا۔ جس کی وجہ گچکی قبائل کی شورشیں تھیں کیونکہ ماضی میں وہ بھی اس علاقے کے حکمران رہ چکے تھے اور اسے واپس حاصل کرنا چاہتے تھے۔
خان صاحب نے اس کا حل یہ نکالا کہ ایک معاہدے کے تحت اس علاقے کا کنٹرول گچکی قوم کے ہاتھ میں دے دیا تاکہ اس علاقے میں امن قائم رہے۔ معاہدے کے تحت یہ طے پایا کہ یہ علاقہ خان آف قلات کی جاگیر میں ہی شامل رہے گا اور اس کا آدھا ریوینیو بھی خان صاحب کو دیا جائے گا لیکن اس کا انتظام گچکی قبائل کے ہاتھ میں رہے گا۔ یہ معاہدہ 1783 تک قائم رہا۔
قریباً پندرہ سال بعد عمان پر دوبارہ فتح پانے کے بعد سلطان اپنے پایۂ تخت واپس لوٹ گیا لیکن گوادر کو حسب معمول اس نے اپنے ہاتھ میں ہی رکھا۔ خان صاحب شاید اس دوران فوت ہو گئے تھے یا مروتاً قبضہ نہیں مانگا بہرحال تقریباً دس سال بعد جب سلطان کی وفات بھی ہوگئی تو خان صاحب کے ورثاء نے گوادر کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا۔
حکومت عمان کے انکار پر انہوں نے بزور قوت قبضہ کرلیا جسے سلطان کی سپاہ نے آکر چھڑا لیا۔ اگلے بیس سال میں یہ چشمک جب زیادہ بڑھ گئی تو اس قصے کو نمٹانے کیلئے برٹش کالونیل ایڈمنسٹریشن نے ثالثی کے بہانے مداخلت کی لیکن انصاف کرنے کی بجائے اس وقت کے سلطان آف عمان سے اپنے لئے کچھ مراعات لیکر قلات خاندان کا دعویٰ یہ کہہ کر عارضی طور مسترد کر دیا کہ بعض دیگر گواہیاں بھی ان کے سامنے آرہی ہیں جن کے مطابق یہ علاقہ عرصہ دراز سے سلطنت آف عمان کی جاگیر ہے بہرحال حتمی فیصلہ کسی کے حق میں بھی نہیں کیا۔
اس خدمت کے عوض برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ نے سلطنت عمان سے یہ ایگریمنٹ کیا کہ حتمی فیصلے تک گوادر کا انتظام برطانیہ کے پاس رہے گا اور حسب سابق عمان کو گوادر کا آدھا ریونیو ادا کیا جائے گا اور اپنی افواج گوادر میں داخل کر دیں یوں تقریباً سوا سو سال تک برطانیہ اس علاقے پر قابض رہا۔
1956 میں ملک فیروز خان نون نے جب وزارت خارجہ سنبھالی تو ہر قیمت پر گوادر کو واگزار کرانے کا عہد کیا اور باریک بینی سے تمام تاریخی حقائق و کاغذات کا جائزہ لیکر یہ مشن محترمہ کو سونپ دیا۔
ان نازک حالات میں یہ پیکرِ اخلاص خاتون ایک چیمپئین کی طرح سامنے آئیں اور برطانیہ میں پاکستان کی لابنگ شروع کی۔ انہوں نے بھرپور ہوم ورک کرکے یہ کیس برطانیہ کے سامنے رکھا تاکہ ہاؤس آف لارڈز سے منظوری لیکر گوادر کا قبضہ واپس لیا جائے۔ کیونکہ قلات خاندان کی جاگیر اب پاکستان کی ملکیت تھی۔ لہٰذا ان کی جاگیر کے اس حصے کی وراثت پر بھی اب پاکستان کا حق تسلیم ہونا چاہئے نیز یہ کہ پاکستان وہ تمام جاگیریں منسوخ کر چکا ہے جو ریوینیو شئیرنگ یا معاوضے کی بنیاد پر حکومت برطانیہ نے بانٹیں تھیں نیز یہ کہ اگر ہم اپنے قانون سے گوادر کی جاگیر منسوخ کرکے فوج کشی سے واگزار کرا لیں تو کامن ویلتھ کا ممبر ہونے کی وجہ سے برطانیہ ہمارے اوپر حملہ بھی نہیں کر سکتا۔
محترمہ نے دو سال پر محیط یہ جنگ تلوار کی بجائے محض قلم، دلائل اور گفت و شنید سے جیتی جس میں برطانیہ کے وزیراعظم میکملن جو ملک صاحب کے دوست تھے انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔
کون سوچ سکتا ہے کہ ایک آسٹرین خاتون جس کی شادی ایک پاکستانی سیاستدان سے ہونے کے بعد وہی خاتون اپنے نئے وطن پاکستان سے اتنی دیرینہ محبت کریگی کہ اس وطن کے زمین کا وہ حصہ جہاں بلوچ آباد رہے ہیں اس ایک حصے کیلئے چار عالمی طاقتوں سے لڑ پڑیگی۔
کہتے ہیں کہ کامیاب امریکہ کے پیچھے ایک محبِ وطن قوم پرستانہ سوچ چپھی ہوئی ہے۔ ایک ایسا ملک جس میں دنیا جہاں کی ساری قومیں، تمام کے تمام مذہب آباد، ہر رنگ و نسل کے لوگ آباد بھی ہیں اور وہ دل و جان سے اپنے وطن امریکہ کو “دی گریٹسٹ امریکہ” بنانے کیلئے اپنا اپنا حصہ ڈال بھی رہے ہیں۔
امریکی اپنے ووٹ سے اپنے نمائندے منتخب کرنے کے بعد اپنے نمائندوں کے بنائے گئے اصول و قوانیں کو اپنے اپنے مذہب سے بھی زیادہ مانتے ہیں، شاید یہی ان کی کامیابی کا زینہ ہے۔ امریکہ میں آباد ہر شہری اپنے آئین و قانون کو اُتنی ہی عزت و محبت دیتا ہے جتنی محبت ہم خود سے کرتے ہیں۔
1961 میں امریکی صدر جون ایف کینیڈی نے اپنے پہلے تاریخی تقریر میں امریکی باشندوں سے ایک معنی خیز بات کہی تھی۔
“یہ سوال مت پوچھیں کہ آپ کا وطن و ریاست آپ کیلئے کیا کر سکتا ہے۔ بلکہ یہ پوچھیں کہ آپ اپنے وطن کیلئے کیا کر سکتے ہیں”۔۔۔!!
دنیا میں جس بھی قوم نے کچھ مثبت کام کر کے اپنے وطن و مٹی کا قرض ادا کیا، علم و دانائی سے لوگوں میں امن پھیلایا اور ریاست کے قانون و تہذیب کی پاسداری کی وہی اس دنیا میں امر کہلائینگے۔

Get real time updates directly on you device, subscribe now.

Leave A Reply

Your email address will not be published.