یکساں قومی نصاب پر چیمہ گوئیاں
تحریر:جعفر قمبرانی
یکساں قومی نصاب پر چیمہ گوئیاں
تحریر:جعفر قمبرانی
حیران ہونے والی بات ہیں کہ حکومت کی سنگل نیشنل کیروکولم کی اعلان کے بہت دیر بعد اس پر میرا تبصرہ آرہی ہے مگر اس پر اتنے نقطہ چینی اور چیمہ گوئیاں ہورہی تھیں کہ فیصلہ لینے میں دشواری ہورہی تھی کہ اسکے کیا اثرات مرتب ہونگے۔ میرا تو اپنا رائے اسکے حق میں شروع دن سے ہی پتھر پہ لکھیر ہی تھا کہ اسکی حق میں صدائیں بلند کرتا آرہا ہوں۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ یونیورسٹی میں اپنے قریبی دوستوں کو بھی اس کی حق میں گاہل کرتا گیا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان میں تعلیمی نظام جتنا فرسودہ، پرانا اور ناکارہ ہے اتنا ہی قابلِ تبدیل اور جدت طراز ہے۔
2006 کے بعد ملک کی تعلیمی نظام میں تبدیلی لانے والا سال 2010 تھی جب اٹھارویں ترمیم پیش کی گئی جس میں صوبوں کو خودمختاری اور اپنا اپنا نصاب بنانے اور چھاپنے کی آزادی مل چکی تھی مگر اس تبدیلی کو میں ہر گز ہر گز بہتری سے تشبیہہ نہیں دونگا کیونکہ بلوچستان یا باقی صوبوں کے پسماندہ علاقے جہاں گیارہ سال پہلے کھڑے تھیں آج بھی وہی کے وہی کھڑے ہیں۔ صوبوں کو اختیار دیکر جیسے وفاق نے انکی زوال انہیں کے ہاتھوں کروانے کا تہیہ کردیا ہو اور اس نصاب میں تبدیلی، جدت اور نیا پن کہی بھی دیکھنے کو نہیں ملتی۔
2016 میں نصاب کو اپڈیٹ تو کیا گیا مگر بلوچستان میں یہ نا ہونے کے برابر تھا۔ آج بھی ہم مکران کوسٹل ہائی وے کو تیار ہوئے نہیں پڑھ پائے جو کہ اب تیار ہوکر پھر سے تباہ ہو چکی ہے۔ اس ٹیکنالوجیکل دور میں ہم دقیانوسی چیزیں کیوں پڑھیں؟ کیونکہ ہم اسکے مستحق نہیں یا جدیدیت ہمارے لئے بنی ہی نہیں؟ بلوچستان اور چند دیگر علاقوں کے علاوہ وفاق اور بنجاب بورڈ اپنی نصاب ہر سال یا دو تین سال بعد تبدیل کرتے رہتے ہیں جسکا نتیجہ ہمارے سامنے عیاں ہے۔ وہاں کی جدید اور قابل دید معیار تعلیم کیلئے ہر بچہ حسرت بھری نگاہوں سے اپنے غیر تبدیل شدہ درسی کتب کو گھورتے رہتے ہیں۔ یاد رہیں کہ 2017 میں قانون سازی کے تحت ایک پارلیمنٹ ایکٹ پاس ہوا جس میں یکساں قومی نصاب کی منظوری ہونے کے بعد اکثر سیاسی جماعتوں نے اس پر دستخط مہر ثبت کرکے اسے قبول کرلیا تھا جس پر اب عمل درآمد ہونے والی ہے۔ جیسے ہی اسکا اعلان ہوا کہ یکساں قومی نصاب تعلیمی سال 2021 سے لاگوں کیا جائے گا تو لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے اسکی مخالفت کرنا شروع کردیا جسکی سب سے معقول وجہ وہ صوبائی خودمختاری چھن جانے کو ٹھراتے ہیں مگر ایسا ہر گز نہیں، نصابی کمیٹی کی طرف سے نصاب اور ٹیکسٹ بکس میں فرق واضح کرکے سمجھایا گیا کہ نصاب (کونسی کلاس میں کیا سیکھا جائے) وفاق کی طرف سے من و ہن بن جائےگی مگر اس نصاب کے مطابق صوبوں کو مکمل یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے علاقائی زبانوں میں کس طرح اس نصاب کو پڑھاتے ہیں۔
صوبوں کی اختیار تو انکے پاس رہہ ہی گیا مگر یکسا قومی نصاب پر واویلہ ہم کیونکر مچائے؟ کیونکہ غریب اور امیر ایک یکساں نصاب پڑھنے جارہے ہیں؟ امیر ماں باپ کے امیر اولاد تو پہلے ہی سے ہر سال نئے اور اپڈیٹڈ نصاب پڑھتے چلے آئے ہیں مگر غریب کا کیا؟
صوبائی حکومت کی طرف سے نازل پرانی، فرسودہ اور ناقابل تبدیل نصاب تو دس سالوں سے پڑھ کر بلوچستان جیسے غیر ترقی یافتہ صوبوں کے تو رال ٹپکنے لگ گئے۔ کیوں نا نئے نصاب اور قانون کو دل سے تسلیم کرکے بلوچستان کے ہونہار، نایاب اور ذہین بچوں کو بلوچستان کے اندر کے بجائے باہر کے مقابلاتی امتحانوں کیلئے تیاری کا موقع نا دی جائے؟ کیوں نا بچوں کو موقع دیا جائے کہ وہ شہر شہر مقابلہ کرنے کے بجائے ملکی سطح پر مقابلہ کرنے کیلئے کنویں سے نکل جائے؟
یکساں قومی نصاب سے اختلاف اسلئے تو نہیں رکھی جارہی کہ اس میں نرسری سے پانچویں تک قرآن مجید ناظرہ اور چھٹی سے بارھویں تک قرآن کریم ترجمہ و تفسیر پڑاھائی جائیں گی؟ یاد رہیں، اس قوانین کے تحت تمام مزاہب و فرقوں کو یکساں حقوق دیکر انکی مزہبی چیزیں نصاب کا حصہ بنیں گے مگر صوبیں اپنے مختار خودی سے جہاں جس جگہ جو چاہے ٹیکسٹ بکس میں ڈال سکتے ہیں جیسے ہزارہ اسکولوں میں انہی کے ہی مطابق ٹیکسٹ بکس تیار کروانا اور شیعہ اور سنی علاقوں میں اپنے اپنے عقیدوں کے الگ الگ کتابیں۔
بلوچستان کا تعلیمی نظام بہت پرانا، ناقابل دید اور اپڈیٹ ہونے کا منتظر ہے پھر اس موقعے سے کیوں نا فائدے اٹھائے جائے؟ ہم کیوں اسکی مخالفت کریں؟ کوئی معقول جواب ہو تو مخافت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر بلوچستان کی تعلیمی نظام کو بہتری کی جانب ہزار جھٹکوں کی ضرورت ہیں اورشاید یہ انہیں جھٹکوں میں سے ایک جھٹکا ہو!