فرقہ وارانیت نہیں، اراضی تنازعہ
کنول زہرا
ایک بار پھرجعلی خبروں کو وائرل کرکے پاک فوج کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے، خیبر پختونخوا کا علاقہ پارہ چنار ایک عرصے سے اراضی تنازعہ کا شکار ہے، درحقیقت یہ مینگل اور طوری قبیلے کی لڑائی ہے، جو فرقے کے اعتبار سے سنی اور شعیہ مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں، یہ قبائل پارہ چنار کے ضلع کرم اور اپر کرم میں آباد ہیں، ہر بار ان قبائل کے درمیان کشیدگی کا سبب زمین کا وہ حصہ بنتا ہے جس کا تاحال یہ تعین نہیں ہوسکا ہے کہ اصل میں اس کا مالک کون ہے ؟ ہربار اراضی تنازعے کو شرپسند عناصر فرقہ وارانیت کا رنگ دیتے ہیں، یہ عناصر ریاست پر دباو ڈال کر پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں، قابل فکر بات یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت اس مسئلے کی جڑ کو اکھاڑنے کی کوشش نہیں کررہی ہے، بلکہ یہ تنازعہ بھی فوج کے ذریعے حل کرانا چاہتی ہے جبکہ یہ کام فوج کا نہیں بلکہ حکومت کا ہے، فوج قیام امن کے لئے آپریشن کرتی ہے، جبکہ حکمران منصوبہ سازی کے ذریعے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں، سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہر چند سال بعد متنازعہ علاقے میں اراضی تنازعہ کو لیکر فرقہ وارانیت کو ہوا کیوں دی جاتی ہے۔
- Advertisement -
بڑی عید پر وزیراعظم پاکستان شہباز شریف آرمی چیف جنرل عاصم مینر کیساتھ پارہ چنار میں موجود تھے، بعد ازاں تخریب کار ذہنوں نے ایک بار پھر زمینی مسئلہ اٹھاکر اسے فرقہ وارانیت نام دیا اور یہ مشہور کیا کہ دونوں شخصیات کے گٹھ جوڑ سے پارہ چنار میں بدامنی ہوئی ہے، ان احمقوں کو کوئی سمجھائے کہ بدامنی کی منصوبہ سازی کے لئے دو اہم شخصیات کو بھلا وہاں جانے کی کیا ضرورت تھی؟
جعرافیائی اعتبار سے دیکھا جائے تو متنازعہ علاقے سے افغانستان کی سرحد ملی ہوئی ہے جو کہ بھارت کا قریبی ہے جبکہ پارہ چنار میں ایران کی مداخلت کے شواہد بھی ملیں ہیں، حکومت ایک جانب تو ملک کے امن کی خاطر پارہ چنار میں فوجی آپریشن سے گریز کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب متنازعہ علاقے کا حل فوج کے تعاون سے کرنا چاہ رہی ہے، جو کہ اب ناممکن ہے
ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ نے ان قبائل کے درمیان صلح کرائی تھی مگر اب ایسا کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ موجودہ آرمی چیف غیر سیاسی حکمت عملی کے تحت نیوٹرل ہیں، یعنی اس تنازعے کو حکومت، قبائل کے درمیان مذاکرات کراکے حل کراسکتی ہے، اور متنازعہ اراضی کو اس کے حقدار کو دیکر یہ معاملہ خوش اسلوبی سے نمٹا سکتی ہے ، ساتھ ہی قبائلی علاقے کو اسلحے سے مکمل پاک کرنے کے سختی کے اقدامات جاری کرکے اس پر عمل بھی کرواسکتی ہے