بلوچستان کے سیاسی موسمی پرندے لگائے گے جیئے بھٹو کا نعرہ
تحریر : میرعزیزمری
گزشتہ دور حکومت میں رشتے داروں کے ہاں فاتحہ خوانی کرنے بلوچستان کے علاقے دالبندین جانا پڑا ایک دو رات رہے اور بازار کاچکر لگایا اس وقت وہاں کے منتخب ایم پی اے و صوبائی امان اللہ نوتیزئی صاحب تھے شہر کا چکر لگایا تو نہ کئی پکی سڑک شہر میں نظر آئی اور گلیوں نالیوں کی حالت سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ یہاں 72.73 سالوں سے کھبی کوئی ترقیاتی کام ہوا ہی نہیں ہے مگر شہر کے ہر دوسرے تیسرے دکان پر شیر بلوچستان ، بابا چاغی ، شیر چاغی وغیرہ وغیرہ نام کے ساتھ اس وقت کے ایم پی اے میر امان اللہ نوتیزئی صاحب کے تصاویر آویزا تھے
جب وہاں کے لوگوں سے گپ شپ ہوئی کہ شہر کی حالت تو انتہائی ابتر سے ابتر ہے مگر یہ شیر ، فرزند ، بابا چاغی ، لالا چاغی کی حقیقت کیا ہے تو انہیں نے بتایا کہ یہاں کوئی ترقیاتی کام وام نہیں ہوتے بس الیکشن کے دنوں میں میرصاحب اپنے خزانوں کا منہ کھول کر حلقے کے لوگوں کو نوازتے ہیں اور اسکے کے علاوہ کوئی بیمار ہو علاج معالجے کے لیے کوئٹہ جائے تو وہاں رہائش اور علاج معالجے کے لیے خرچہ وغیرہ مل جاتا ہے اور یہاں ایم پی اے سیٹ جیتنے کے لیے یہی بہترین اور کامیاب فارمولا گزشتہ 20 سے 25 سالوں سے چلتا آرہا ہے یہاں میں سابق ایم پی صوبائی وزیر کو بلکل بھی تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہا بلکہ چاغی دالبندین کے پڑھے لکھے لوگوں پر حیران ہو کہ بلوچ علاقہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہاں بلوچیت کا فقدان تھا وہاں آج بھی سوشل میڈیا دیکھے یا اخبارات توصرف کرسی پر بیٹھنے والوں کی تعریفیں ہی دیکھنے کو ملتی ہیں چاہیے ق ہو پی پی پی نون لیگ ہو باپ ہو جو بھی ہو باقی سیاست نظریہ بلوچ بلوچیت کی سوچ و فکر والے آپ کو کئی نظر نہیں آئیں گے
خیر چاغی کی سیاست کا 2023 کے الیکشن سے پتہ چل جائے گا علاقے کے عوام موجودہ صوبائی وزیر عارف محمد حسنی سے بہت نالاں نظر آتے ہیں جبکہ چیئرمین سینٹ کے بھائی عجاز خان بھی چاغی دالبندین میں کافی اسکیمات لائے ہیں اور بہت سارے ترقیاتی کام کرچکے ہیں اور امان اللہ نوتیزئی صاحب نے بھی 2023 کے الیکشن میں خزانوں کا منہ کھول کر الکیشن جیتنے کے لیے تمام تر کوششیں کرنے ہیں کیونکہ اب وہ بھی پاکستان پیپلز پارٹی میں بھی شمولیت اختیار کرنے جا رہے کیونکہ عوام باخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کی تحریک سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے اور آنے والے دور میں حکومت بنانے کے لیے بھی ڈیل کرچکی ہے یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے موسمی سیاسی پرندے جن کا وطیرہ رہا ہے اور پارٹیاں و وفاداریاں تبدیل کرنے میں کسی بھی قسم کا شرم محسوس نہیں کرتے وہ سب اب ” کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے “ کا نعرہ لگانے جا رہے ہیں جس میں مسلم لیگ ن کے سابق شیر سابق وزیر اعلی بلوچستان نواب ثنا اللہ زہری جنرل قادر بلوچ نے پہلے ہی پی پی میں شمولیت کا اعلان کیا ہے اور بلاول بھٹو صاحب کو بلوچستان آنے کی دعوت بھی دی کہ ان کی شمولیت کی جلد کی جائے تاہم بلاول صاحب نے انھیں صبر کا مشورہ دیا کہ آپ تو ہمارے پرانے گیلانی دور کے ساتھی تھے پہلے پنجاب میں اپنی سیاسی سرگرمیاں اور جوڑ توڑ کروں بعد میں بلوچستان کا رخ کرنا ہے کیونکہ باکستان مسلم لیگ ن کے پرانے ساتھی باپ پارٹی کے نافرمان ، پی ٹی آئی کے بلے باز اب پی پی میں جانے کی تیاری میں ہے مگر سب صوبائی وزارت لیے بھیٹے ہیں الیکشن قریب ہو تو ایک ایک نے نکل کر میرقدوس بزنجو جمالی خاندان مگسی خاندان ، صالح بھوتاتی ، امان اللہ نوتیزئی ، کریم نوشیروانی کی شکل میں سب نے پی پی کے جھنڈے تلے اکھٹا ہوکر ”زندہ ہے بی بی زندہ ہے “ بھٹو کل بھی زندہ تھا بھٹو آج بھی زندہ ہے تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا “ نعرہ لگانے کے لیے بیتاب ہیں۔
بلوچستان کے باشعور عوام اور دیگر نظریاتی و سیاسی پارٹیوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ عوام میں شعور آگاہی پھیلائیں کیوں اگر عوام نے ووٹ کا غلط استعمال کیا تو پھر موجودہ حکومت کی طرح موسمی سیاسی پرندے ہی ہم پر مسلط ہونگے اور بعد میں رونے کا فائدہ نہیں ہوگا جیسے حالیہ سینیٹ الیکشن میں شہید عثمان خان کاکڑ ساجد ترین ایڈووکیٹ جیسے دانہ لوگ سینیٹ جیسے اہم ایوانوں سے محروم رہ گئے زوجہ احسان شاہ اور عبدالقادر جیسے بزنس مین سینیٹ جیسے ایوان میں آکر اپنا کارخانہ لگا کر کاروبار کرتے رہے گے۔