Ultimate magazine theme for WordPress.

جمہوریت میں اکثریت رائے کا احترام ہوتا ہے، 40میں سے 30اراکین کی حمایت حاصل ہے، جام کمال

1 160

کوئٹہ(مسائل نیوز)وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہاہے کہ جمہوریت میں اکثریت رائے کااحترام ہوتاہے 40اراکین کی مخلوط حکومت میں 30اراکین کی حمایت حاصل ہے یہ کہیں کا توک نہیں کہ 5لوگوں کیلئے 35لوگوں کی رائے کونظرانداز کی جائے،شروع دن سے چند لوگ اس بات پرناراض تھے کہ جام کمال کیوں وزیراعلیٰ بنے ہیں ہر ایم پی اے کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ وزیراعلیٰ بنیں ناراض ارکان کے7سے8ارکان واضح کرچکے کہ انہیں جام کمال سے کوئی شکایت نہیں بلکہ مجبوری کے تحت ایسے ماحول میں دیگر 5ناراض لوگوں کی ہاں میں ہاں ملائی سوچانہیں تھاکہ معاملہ اس موڑ تک پہنچے گا۔ان خیالات کااظہار انہوں نے نجی ٹی وی کوانٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ الحمد اللہ بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر آج بھی بہت سارے دوست میرے ساتھ ہے ہماری مخلوط حکومت ہے صرف بی اے پی کی حکومت نہیں ہے اس مخلوط حکومت کے اندر 4سے5جماعتیں ہیں جنہوں نے پہلے دن سے اتحاد کیاہے اور آج تک حکومت قائم ہے ان میں سے کوئی بھی نکل جاتاہے توہماری حکومت کیلئے بڑے مسائل بنیں گے،اس وقت میں اتحادی جماعتوں کے اتفاق سے میں وزارت اعلیٰ پر فائز ہوا پہلے دن سے 4سے5لوگ بلوچستان عوامی پارٹی کے بھی ایسے تھے اوراس بات پر ناراض تھے کہ جام کمال کیوں وزیراعلیٰ بلوچستان بنے ہیں یہ ان کو بننا چاہیےے تھا ہر ایم پی اے کی خواہش ہوتی ہے کہ میری بھی خواہش ہوسکتی ہے آج بھی وہ چار سے پانچ لوگ نالاں ہے لیکن مزید 6سے7لوگ اس ناراض گروپ میں گئے ہیں ان کے ساتھ میری ملاقاتیں ہوئی ہیں میں نے کہاکہ آپ مجھ سے کیوں ناراض ہیں میں نے تو آپ کو ترقیاتی اسکیمات نہیں دئیے ہیں ناراض ارکان نے جواب میں کہاکہ آپ نے اسکیمات بھی دئیے ہیں عزت بھی دیاہے اور ہمارے ساتھ بہت اچھا رویہ اپنایاہے لیکن ہماری مجبوری ہے کہ ہم اتفاقاََ کہیں بیٹھے تھے کچھ مسائل پر بات ہوئی ہم نے ہاں میں ہاں ملائی ہے وہاں ایک ایسا ماحول بنا دیا گیا کہ آج سے ہم ساتھ ہیں جو بھی قدم اٹھائینگے ساتھ ہی اٹھائیں گے اور اپنے مسائل حل کرینگے لیکن وہ مسائل حل کرنا دور کی بات وہ اپوزیشن کے ساتھ جا کر مل گئے انہوں نے عدم اعتماد کی تحریک کا اپوزیشن کے لوگوں کو ٹھیک طرح پتہ ہی نہیں تھا کہ واقعی اس عدم اعتماد کا کوئی طریقہ ہے یا نہیں ہے اسی طرح ہمارے بہت سے لوگوں کو بھی پتہ نہیں تھا لیکن جوں جوں یہ سارا طریقہ کار آگے بڑھتا گیا مجبوری میں ہم پستے گئے حالیہ تین سے چار دنوں میں میری ملاقاتیں ہوئی میرا تو کم ازکم ضمیر اس بات پر مطمئن ہیں کہ ناراض لوگوں میں 6سے8لوگ ایسے ہیں جنہوں نے میرے سامنے یہ بات کہی ہے کہ جام صاحب ہمیں آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے ہماری شکایت اگر ہوگی تو کسی وزیر سے ہوگی آپ سے نہیں کیونکہ یہ معاملہ اتنا آگے چل پڑا کہ ہم اپنی بات پر مجبور ہوگئے ہیں لیکن اب بھی ہم کوشش کرینگے کہ اس نااتفاقی کودور کرینگے اپنے ان دوستوں کو بھی سمجھائینگے کہ ہم نے پہلے دن سے یہ نہیں سوچا تھا کہ کہ معاملے کو آجس موڑ پر کھڑادیاگیاہے،جمہوریت میں ہمیشہ اکثریت کی رائے کوتسلیم کیاجاتاہے اگر ہمارا 40کااتحاد ہے تو 40میں 25سے30لوگ میرے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں تومیرے خیال میں ان لوگوں کو بھی یہ رائے مان لینی چاہئیں اب یہ توکہیں کا توک نہیں بنتا کہ 5لوگ کم ہورہے ہوں کہ حکومت جاسکتی ہے 5لوگوں سے 35لوگوں کی رائے کو نظرانداز کیاجائے وزیراعظم بھی اکثریت رائے سے بنتے ہیں،اختلافات ضرور ہونگے لیکن یہ نہیں ہوتاکہ آپ اپوزیشن کو اپنے ساتھ ملائیں پھر دوسروں کو ملائیں دوسری بات آپ نے نواب ثناء اللہ زہری کی بات کی ہم یہاں پر بلوچستان عوامی پارٹی،پاکستان تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں نے مل کر حکومت بنائی ہے دوسری طرف پی ڈی ایم ہے اگر پی ڈی ایم کو اکثریت ملی تو پی ڈی ایم کو کون اکثریت دے رہاہے کیا بلوچستان عوامی پارٹی یا پی ٹی آئی یاعوامی نیشنل پارٹی دے گی اگر یہ سارے ان کو اکثریت دینگے تو یہ بہت بڑا ایشو بن جائے گا لیکن میں سمجھتاہوں کہ ہمارے اس طریقے سے غیر جمہوری انداز میں شروع کیاگیاہے ہم اس مسئلے کو آئندہ دو دنوں میں حل کرینگے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.