Ultimate magazine theme for WordPress.

!!!بس اب بس ۔۔۔۔۔۔۔

4 965

تحریر۔سید نور آغا

- Advertisement -

معاشرہ میں امن و امان قائم رہے اور اس میں رہنے بسنے والے انسان پر سکون زندگی گزاریں یہ ایک اچھے سماج کی علامت ہے ، معاشرہ میں رہنے والے خیر پسند بھی ہوتے ہیں اور شر پسند بھی، ظاہر ہے خیر پسند انسان کسی کے لئے کوئی مسئلہ نہیں بنتے بلکہ ان کی وجہ سے انسانوں کو نفع پہونچتا ہے ، بذات خود وہ خیر کا سرچشمہ ہوتے ہیں ان سے جو بھی ملتا ہے اس کو خیر کا ہی تجربہ ہوتا ہے اور ان کی خیر پسندی دوسروں کو خیر پسند بنانے کا کردار ادا کرتی ہے اس طرح معاشرہ خیر سے بھر جاتا ہے ، بہت سے خیر پسند جہاں جمع ہو جائیں وہاں سے شر معدوم ہو جاتا ہے ، لیکن جس سماج میں شر پسند عناصر زیادہ ہوں اس سماج کا خدا حافظ ہے، ایسے سماج میں امن و آمان کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا، معاشرہ کا سکون کب درہم برہم ہو جائے کچھ کہا نہیں جاسکتا، شر پسندوں کی وجہ خیر پسند افراد کا جینا دوبھر ہو جاتا ہے، معاشرہ پر امن ہو تو وہاں انسانیت کے بہت سے اچھے و مفید کام ہوسکتے ہیں، مادی اعتبار سے بھی وہ ماحول بہت کچھ سہولتوں کا حامل بن جاتا ہے اور وہاں رہنے بسنے والے بھی پر سکون رہتے ہیں اور خوشگوار زندگی بسر کرتے ہیں، سماج کی سب سے بڑی مصیبت شر پسند اصحاب ہیں جن کی وجہ معاشرہ سے سکون و راحت رخصت ہو جاتا ہے اور ساری ترقیات دھری کی دھری رہ جاتی ہیں نہ رات آرام سے گزرتی ہے نہ دن کا چین نصیب ہوتا ہے ہمیشہ ایک دغدغہ لگا رہتا ہے کہ کب کیا ہو جائے کچھ نہیں کہا جاسکتا، خیر پسند لوگوں کی مثال گویا شہد کی ہے جس سے لوگ نفع اٹھاتے ہیں اس کی مٹھاس اور اس کی شیرینی لذت و راحت بخشتی ہے اس کے برخلاف شر پسند افراد کی مثال سانپ یا بچھو کے ڈنک سے دی جاسکتی ہے کہ جس کا زہر بسااوقات انسان کو موت کی آغوش میں پہنچا دیتا ہے، شر پسند عناصر معاشرے میں فساد برپا کرنے کے لئے ایک چھوٹی چیز کو بھی جواز کی وجہ بنالیتے ہیں اور وہ فساد مچاتے ہیں،کہ ال امان والحفےظ جس سے انسانی سماج تباہ و تاراج ہو جاتا ہے ، جانی نقصانات کے ساتھ مال اور زندگی گزارنے کے ساز و سامان سے بھی بہت سے معصوم و بے قصور انسان محروم ہو جاتے ہیں۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اے ایمان والو اگر تمہارے پاس ایک فاسق انسان اگر کوئی خبر لے آئے تو تم اس کی اچھی طرح سے جانچ پڑتال کر لو ایسا نہ ہو کہ نادانی و ناسمجھی میں تم کسی قوم کو نقصان پہونچا دو اور اس کئے پر تم کو بعد میں ندامت ہو (۴۹۶)۔ اس آیت پاک سے یہ ہدایت ملتی ہے جب کبھی کوئی خبر کسی کی طرف سے آئے تو فوری اقدام کرنے کے بجائے تحقیق کر لی جائے بسا اوقات معاشرہ کے بگڑے ہوئے انسان جن کا کام ہی فساد پھیلانا اور انتشار برپا کرنا ہوتا ہے اور جن کا کردار انسانیت کے حوالے سے داغدار ہوتا ہے ان کی طرف سے آنے والی خبر خاص طور پر تحقیق طلب ہوتی ہے بلا تحقیق ان کی بات کو مان کر کسی رد عمل کا اظہار کر دیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ وہ کسی قوم پر ظلم بن جائے اور نا کردہ گناہ کی ان کو سزاءمل جائے ، کسی برے انسان کی بات پر یقین کر کے کوئی اقدام کر لیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ وہ ندامت و پشیمانی کا باعث بن جائے ، بگڑے سماج میں خاص طور پر ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کا محبوب مشغلہ ہی افواہیں پھیلانا اور اس کی وجہ معاشرہ کا سکون برباد کرنا ہوتا ہے ، خبر کے بارے میں ایک قاعدہ متکلمین نے بیان کیا ہے الخبر یحتمل الصدق و الکذب۔خبر تو صدق و کذب دونوں کا احتمال رکھتی ہے اور یہ مقولہ بھی مشہور ہے کہ لیس الخبر کالمعا ین۔خبر تو خبر ہے وہ دیکھی بھالی بات جیسی تو نہیں ہوسکتی۔
ہمارے سماج میں اکثر بے پرکی اڑائی جاتی ہے اور کسی ایک طبقہ کی ان کے تئیں کسی مقدس جگہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کی کسی مذہبی نشانی سے چھیڑ چھاڑ کیا جاتا ہے، چھیڑ چھاڑ کرنے والے عام طور پر فسادی مزاج افراد ہوتے ہیں، شر پسندی کا مظاہرہ کر کے اس کو دوسرے طبقے کے سر تھوپ دیتے ہیں پھر فتنے اور فساد کا بازار آن کی آن میں گرم ہو جاتا ہے، ناحق انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں اور سرمایہ حیات تباہ و تاراج ہوتا ہے، دلوں میں اس سے نفرت و عداوت کے بیج جگہ بناتے ہیں اور اس سے جو شجر پَنپتے ہیں وہ زہر آلود ہوتے ہیں وقفہ وقفہ سے ایسے واقعات کا وقوع انسانیت سے یقین کو اٹھا دیتا ہے۔ حال ہی میں انڈےا حیدرآباد کے ایک علاقہ کشن باغ میں ایسا ہی واقعہ رونما ہوا ، ہمارے سکھ بھائیوں کے مذہبی نشان کو کسی نے آگ دکھا دی پتہ نہیں کہ یہ شر کا شوشہ لگانے والے سماج کے کون دشمن عناصر تھے، ہوسکتا ہے کہ اس علاقہ میں مسلم اور سکھ بھائیوں کا آپس میں میل ملاپ کے ساتھ رہنا دشمن عناصر کو کھٹک رہا ہوگا، اور اس نے یہ کارستانی کی ہوگی، تحقیق کے بغیر اقدام کی وجہ سکھ بھائیوں کی طرف سے مسلمانوں پر شدید مظالم ڈھائے گئے کئی ایک گھروں کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا، اور ساز و سامان کو راکھ کی ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا، پھر پولیس کی کاروائی نے مزید ظلم ڈھائے ، ہنگامی حالات اور افراتفری کے ماحول میں جو افراد گھر کے باہر جانکاری کے لئے نکلے تھے اور ان کا مقصد صرف حقیقت حال کا جاننا تھا نہ کہ فساد مچانا لیکن افسوس پولیس کی گولیوں کا وہ نشانہ بن گئے اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، یہ واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس طرح کے واقعات ہمارے شہر میں کئی ایک پہلے بھی ہو چکے ہیں، بعض قوم و ملک دشمن عناصر نے کہیں مساجد کی بے حرمتی کے مرتکب ہوئے، مساجد و منادر اور مذہبی مقامات پر خنازیر کاٹ کر پھینک دئے گئے، اور ہمارے غیر مسلم بھائیوں نے شک و شبہ کی بنیاد پر بلا تحقیق مسلمانوں کو اور ان کی بستیوں کو نشانہ بنایا، آگے چل کر جب تحقیقات سامنے آئیں تو پتہ چلا کہ یہ حرکت کرنے والا کوئی مسلمان نہیں بلکہ انہیں کی قوم سے تعلق رکھنے والا تھا، ابھی سات سال قبل حیدرآباد کی مشہور و معروف تاریخی مکہ مسجد میں بم دھماکے کئے گئے ، کئی ایک انسانی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں پولیس نے شک و شبہ کی بنیاد پر کئی ایک مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا اور قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار کیا، لیکن تحقیق کے بعد جو نتیجہ سامنے آیا اس سے معلوم ہوا کہ یہ مذموم حرکت کرنے والے خود ہمارے شہر کے غیر مسلم شرپسند عناصر تھے، ان سارے واقعات میں ظاہر ہے ا±ن کا مقصد سوائے فساد برپا کرنے اور امن و آمان کو درہم برہم کرنے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے، ان جیسے واقعات میں جن کے مذہبی نشان یا ادارے کو کسی نے نقصان پہونچایا ہو تو وہ انسان نہیں ہوسکتا، وہ تو کوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے جو بظاہر انسان کے جامہ میں غیر انسان ہو اور جس کو سماج کا امن و امان ایک آنکھ نہ بھاتا ہو۔ کشن باغ کے واقعہ میں امن و امان کے محافظ پولیس والوں کا رویہ بھی قابلِ مذمت ہے، مشتعل ہجوم پر قابو پانے کیلئے آنسو گیس کا استعمال کیا جاسکتا تھا ، لاٹھی چارج کی جاسکتی تھی ناگزیر صورت میں حسب قاعدہ ہوائی فائرنگ کی جاسکتی تھی یا قانون کے مطابق اوپری جسم کے بجائے نچلے حصے میں پیروں کی طرف گولی چلائی جاسکتی تھی لیکن ایسی کیا وجوہات تھے اور کیوں انسانی سینوں کو داغا گیااور کیوں بے خطاءانسانوں کو موت کی نیند سلادیا گیا، اس خصوص میں حکومت کو خصوصی نوٹ لینا چاہئیے اور جن پولیس والوں نے غیر قانونی و غیر انسانی رویہ اختیار کیا ہے ان کے لئے قانونی کاروائی کی جانی چاہئیے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں، موجودہ صورتحال میں خاص طور پر صبر کرنے اور اس کے بعد تحقیق کے سارے احوال کا جائزہ لینے کی سخت ضرورت ہے اگر دانشمندی کا مظاہرہ کیا جائے اور ہر دو طبقے کے افراد سوچے سمجھے بغیر جذبات کی رو میں بہہ کر فوری کوئی اقدام کرنے کے بجائے ان کے سنجیدہ افراد آپس میں سرجوڑ کر بیٹھیں اور فسادیوں کا پتہ لگانے کی مہم میں لگ جائیں یا پھر اس معاملہ کو قانون کے ذمہ داروں کے سپرد کر دیں تاکہ بعد تحقیق جو نتیجہ سامنے آئے اس کے بعد کوئی فیصلہ لیا جائے تو ظاہر ہے اس سے بستیوں کا امن و امان قائم رہ سکتا ہے، اور ملک و قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں، ایسے دشمن عناصر کسی بھی اعتبار سے رعایت و مروت کے لائق نہیں رہتے لیکن ایسے عناصر کو بھی سزا دینا عوام کا فرض منصبی نہیں ہے ، اگر عوام خود فیصلہ کر لیں اور سزاء جاری کر دیں تو پھر پولیس ، عدالت، اور حکومت پر ایک سوالیہ نشان لگ جاتا ہے کہ آخر یہ کس مرض کی دوا ہیں۔ اور ان قانونی اداروں کا بھی فرض ہے کہ وہ عدل و انصاف کو کسی قیمت ہاتھ سے جانے نہ دیں، اور کسی وقت بھی جانبداری کا کوئی مظاہرہ ان سے نہ ہونے پائے، ورنہ پھر انصاف کا خون ہوگا اور ایسا معاشرہ چین و سکون سے محروم رہے گا بس اب ہماری حکام بالا سے گزارش ہے کے وہ ایسے عناصر کو خود سزا دے جو عوام میں اشتعال کا باعث بنتے اور ایسے واقعات پر سخت سے سخت قدم اٹھائے جس عوام کی اور اہلیان پاکستان کی دل آزاری ہوتی ہے اور عوام کی ذہنی و فکری تر بیت بھی کرے جہاں ان کو اداروں پر بھرپور اعتماد ہو کہ ہماری سننے والا کوئی ہے ہمیں انصاف دینے والے موجود ہے اب ہمیں انصاف ملے گا مگر یہاں تو افسوس کہ بہت سے مظلوموں کو مرنے کے بعد بھی انصاف نہی ملتا تو بل آخر اب عوام مجبور ہو کے سڑکوں پہ نکل آئی اور ۔ اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچایا کیونکہ انہیں اپنے غصے کے اظہار کا اور کوئی راستہ نہ ملا میں عوام و حکام دونوں کو کہوںگا کے بس اب بس بہت ہوا اب خدارا ہوش کے ناخن لو اپنی ذمہ دارہوں کا احساس کرو وگرنہ کہی ایسا نہ ہو کے ہم خود ہی اپنے نشیمن پھونک دے اور ہماری داستاں تک نہ ہو داستانوں میں اس مصرعہ کے مصداق
(اس گھر کو آگ لگ گئی اس گھر کے چراغ سے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.