صادق القلوب ۔۔۔ (پہلی قسط)
صادق القلوب ۔۔۔ (پہلی قسط)
تحریر : صدام لونی
پشتون لفظ سنتے ہی مہمان نوازی، اعلیٰ ظرفی، وفادارانہ طبعیت اور جنگی محاذ پر ڈٹے ناقابلِ شکست ٹولے کا نقشہ ذہن میں آ جاتا ہے۔ پشتونوں کی تاریخ یہی کوئی پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ جتنی اِن کی تاریخ پرانی ہے ان کے اوصاف و صفات اُتنے ہی پختہ ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جو تاریخ میں جس بھی خطے اور محل و وقوع میں رہائش پذیر رہے ہوں انہوں نے ہمیشہ اپنے وطن اور مٹی سے وفا کا منہ بولتا ثبوت دیا ہے۔ پشتون حضرت ابراہیمؑ کی اولاد میں سے ہیں اور اِن کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے۔ پاکستان میں پشتونوں کی آبادی پانچ کروڑ سے زیادہ ہے۔ افغانستان میں دو کروڑ سے زیادہ پشتون آباد ہیں جبکہ انڈیا میں انکی آبادی پچاس لاکھ تک ہے۔ پشتونوں میں کل 350 سے 400 قبیلے ہیں۔
مغل بادشاہ جہانگیر کے وقت میں نعمت اللہ حراوی کو سمانا کے حیبت خان سے افغانوں کے کچھ دستاویز ملے۔ جس کی مدد سے 1612 میں نعمت اللہ نے “مغزانِ افغان” کتاب لکھی۔ اس کتاب میں بتایا ہے کہ جب حضرت محمدﷺ نے اسلام کی تبلیغ شروع کی تو حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو حضورﷺ نے کہا کہ اے خالد تمہیں چاہیئے کہ اپنی قوم کو میرے پیغام سے آگاہ کرو اور دینِ اسلام کی دعوت دو۔ اس کے بعد حضورﷺ کے حکم پر خالد بن ولید نے قیس کے گروہ کو ایک خط لکھا۔ قیس کا تعلق پشتون قبیلے سے تھا۔ جب خالد کا مکتوب اس صادق القلوب گروہ کو ملا تو انہوں نے اسے قبول کیا۔ اس گروہ کے بزرگ ترین افراد کے ہمراہ قیس ان کی سربراہی کرتے ہوئے جبلِ غور سے روانہ ہوئے اور مدینہ منورہ پہنچے۔ وہاں خالد بن ولید کے وسیلے سے حضورﷺ کے ہاں حاضر ہوئے اور مشرف با اسلام ہوئے۔ آنحضرتﷺ اُن کے دینِ اسلام قبول کرنے میں تحمل اور تاخیر نا کرنے پر بہت خوش ہوئے۔ حضور ﷺ نے قیس کیلئے عبدالرشید نام تجویز کیا اور ملک کا خطاب دیا۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد عرب کے لوگ ان کو ملک عبدالرشید کے نام سے پکارتے تھے۔ جب حضور مکہ میں تشریف فرما تھے تو حضرت خالد بن ولید اور ملک عبدالرشید کو نو مسلم کے سر پر متعین فرمایا گیا۔ روزِ فتح مکہ جب عکرمہ بن ابوجہل نے خالد کے لشکر پر حملہ کیا تو وہاں سے وہ ایک بت خانے میں چھپ گیا۔ قیس عبدالرشید کی دلیرانہ صفت کی سربراہی میں اِن پٹھانوں کی ضربِ شمشیر کی تاب نا لاکر عکرمہ وہاں سے مکہ کی جانب بھاگا۔ قیس عبدالرشید اور خالد کے لشکریوں نے گلی کوچوں تک عکرمہ بن ابوجہل کا تعاقب کیا اور اُس کے کئی ساتھیوں کو جہنم رسید کیا۔ جب صحابی قیس عبدالرشید کی شجاعت و ہمت کی خبر آنحضرت کو پہنچی تو آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے۔
آپ نے فرمایا کہ “اس شخص کی نسل سے عظیم سلسلہ جاری ہوگا جو میرے دین کے استحکام کی کوشش کریگا”۔ حضورﷺ کی جانب سے قیس عبدالرشید کو “بتان” کا لقب ملا۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی سخت ترین لکڑی کے ہیں۔ وہ لکڑی جسے سمندری پانی بھی کمزور نہیں کر سکتا۔ یہی وہ اعلیٰ صفات ہیں جو آج بھی ہر پشتون کے اندر دیکھنے کو ملتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بتان لفظ آج پٹھان ہوگیا ہے۔
ہندوستان میں پشتونوں کی آمد 10ویں صدی میں شروع ہوئی۔ پشتون قبیلے دِلی سلطنت کی الگ الگ فوج میں شامل ہو کر ہندوستان کے مختلف ریاستوں میں آباد ہوئے۔ میرٹھ شہر شمالی بھارت میں پشتونوں کی سب سے پرانی بستی کہا جاتا ہے۔ سلطان فیروز شاہ طغلق پنجاب کے شہر قصور سے ابراہیم خیل پشتونوں کو بِلند شہر میں لائے تھے۔ اس کے بعد پشتونوں کی لودھی سامراج کی شروعات ہوئی جس کا سپہ سالار ابراہیم لودھی تھا۔ پشتونوں کی ہمت اور جنگوں میں قدامت پسندی دیکھتے ہوئے مغلوں نے انہیں اپنی فوج میں شامل کرنا شروع کیا تھا۔
پشتون جنگجو بادشاہ احمد شاہ ابدالی کی بہادری کے قصے آج بھی زبان زدِ عام ہیں۔ یہ وہ بادشاہ تھا جس نے اپنے دور میں کئی جنگیں لڑیں اور قاتح ٹھہرا۔ 1747 میں احمد شاہ ابدالی نے افغانستان پر حملہ کر کے ایرانیوں سے افغانستان چھین لیا اور وہاں کا بادشاہ بنا۔ احمد شاہ ابدالی نے کابل ، غزنی اور پشاور فتح کیا۔ 1748 میں احمد شاہ ابدالی لاہور پہنچا اور وہاں قابض ہوا۔ احمد شاہ ابدالی 23 اکتوبر 1772 کو انتقال ہوئے۔
احمد شاہ ابدالی کے قبر پر لگائے قطبے پر لکھا ہے کہ “احمد شاہ دُرانی کے دور میں ہرن اور شیر ایک ساتھ رہتے تھے۔ اِس کے دشمنوں کے کان اس کی فتوحات کے شور سے بہرے ہو گئے تھے”۔ تاریخ نے ہمیشہ سے ہی پشتونوں کو اپنے وطن اور مٹی سے محبت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
3 جون 1947 کی تقسیم کے مطابق برصغیر میں 565 نوابی ریاستوں کو حکم ملا تھا کہ پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ مسلم اور ہندو اکثریت کی بنیاد شامل ہو جائیں اور اگر چاہے تو اپنی جداگانہ حیثیت برقرار رکھے۔ اِس کے بعد جموں اور کشمیر کے مسلمانوں نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی لیکن ان ریاستوں کے ہندو حکمران مہاراجہ ہری سنگھ ایک خود مختار ریاست کے خواہش مند تھے۔ ایسے میں پاکستان کے حق میں کشمیری مسلمانوں کی زور پکڑتی تحریک دیکھ کر ہری سنگھ اس قدر خوف زدہ ہوا کہ پاکستان پر ہندوستان کو فوقیت دیتے ہوئے اکتوبر 1947 میں الحاق کا فیصلہ کیا۔
15 اگست 1947 کو پونچھ میں کشمیری مسلمانوں نے پاکستان کا جھنڈا لگا کر پاکستان کے ساتھ الحاق کے نعرے لگائے جس پر پولیس اور کشمیری مسلمانوں کے درمیان جھڑپ میں کئی ہلاکتیں ہوئی۔ اس واقعے کے بعد کشمیری مسلمانوں کی تحریک مزید زور پکڑتی گئی اور بالآخر 12 ستمبر 1947 کو پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے عسکری اور سویلین حکام کے ساتھ اجلاس میں جموں و کشمیر کے باغیوں کی مدد کرنے اور بہادر پشتونوں کو وہاں بھیجنے کی ہدایت دی۔ پاکستان کو برطانوی راج سے ابھی آزادی ملی تھی اور اس کے حصے میں ڈیڑھ لاکھ فوج اور کچھ بوسیدہ ہتھیار آئے تھے۔ پاکستان نے جنگ میں مدد کیلئے غیور پشتونوں سے رابطہ کیا کیونکہ وہ اکثر جنگوں کا حصہ رہے تھے اور انہیں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنی تھی۔ پشتونوں نے درخواست قبول کی اور لشکروں کی صورت میں کشمیر کی طرف روانہ ہوئے۔ اُس وقت ڈائریکٹر ملٹری آپریشن محمد شیر خان تھے جن کا تعلق سوابی سے تھا۔ انہوں نے چارسدہ کے محمد اکبر خان کو کشمیر میں لڑنے والے سپاہیوں کی قیادت سونپی۔ محمد اکبر خان نے جرات اور دلیری سے لشکر کی سربراہی کی اور بعد میں فوج میں میجر جنرل کے عہدے پر فائض ہوئے۔ پشتونوں کے لشکر میں سابقہ فاٹا کے محسود، وزیر، آفریدی، خٹک، مینگل اور افغانستان کے سلیمانخیل قبیلے کے لوگ شامل تھے۔ نواب آف دیر نے ایک بہت بڑا لشکر تیار کیا۔ اس لشکر میں دوسری جنگِ عظیم کے تجربہ کار سابقہ پشتون فوجی بھی شامل تھے۔ جنگجو پشتون ایک سال تک وہاں لڑتے رہے اور موجودہ آزاد کشمیر ظالم ہندوستان کے قبضے سے آزاد کراکر پاکستان سے اپنی حب الوطنی کا ثبوت دیا۔
جرات ، قدامت پسندی ، شجاعت و وفاداری میں پشتون قوم کی مثال کشتی کے بتان کی ہے۔ جسے سمندری پانی بھی کمزور نہیں کر سکتا۔ کشتی کی بندش و مضبوطی کا اس پر انحصار ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جب کشمیر کے مسلمانوں کو مصیبت کی گھڑی میں مدد کی ضرورت تھی تو پشتونوں نے اپنا سینہ حاضر کیا اور اپنی وفاداری کا عملی ثبوت دیا اور دینِ اسلام کے بقا کی بات آئی تو کافروں کو لوہے کے چبے چبوا کر امر ٹھہرے۔ حضور ﷺ نے اس قوم کے بارے میں سچ ہی کہا تھا کہ یہ قوم ہمت و بہادری میں اپنی مثال آپ ہوگی۔ اسی لیے پشتون قوم سے قیس عبدالرشید، احمد شاہ ابدالی یا پھر محمد اکبر خان جیسے نگینے نکلے جو ہر دور میں ہر موڑ پر جس بھی خطے یا علاقے میں آباد رہے ہوں وہاں کی مٹی سے ہمیشہ وفا ہی نبھاتے آئے ہیں کیونکہ یہی پشتون روایات اور “پشتون ولی” کا حصہ ہے۔